آج کیوں نالہ مرا آتش فشاں ہوتا نہیں
شکوہ سنج دوست فریاد زباں ہوتا نہیں
نامہ بر سے مدعا شاید بیاں ہوتا نہیں
جو جواب یار مجھ تک ارمغاں ہوتا نہیں
کیا ہوا نا مہرباں ہے مہرباں ہو جائے گا
مجھ کو بے مہری کا اس پر بد گماں ہوتا نہیں
طعنہ زن ناصح نہ ہو تو مجھ کو عریاں دیکھ کر
عاشق شوریدہ رسوائے جہاں ہوتا نہیں
بد گمانی ہے مری وہ غیر پر ہے مہرباں
ایسا کافر دل کسی پر مہرباں ہوتا نہیں
تفرقہ الفت میں ہو پھر کیا کھلے قدر وفا
بے ملے دونوں دلوں کے امتحاں ہوتا نہیں
یاد تھی جتنی خوشامد ہم نے وہ بھی صرف کی
پھر بھی راضی ہم سے اس کا پاسباں ہوتا نہیں
وضع بے مہری کی چھوڑو عیب لگتا ہے تمہیں
مہرباں ہو کر کوئی نا مہرباں ہوتا نہیں
وہم ہے یا سہم ہے قاتل کو یا میرا خیال
ہاتھ کانپے جاتے ہیں خنجر رواں ہوتا نہیں
ذائقہ راقمؔ نہیں آتا فراق یار کا
کچھ رگ و پے میں لہو جب تک رواں ہوتا نہیں
راقم دہلوی