غزل
آخری حل تھا یہی پیش نظر جانے دیا
ایک گہری سانس لی پھر خواب مر جانے دیا
ساربانا دے گواہی مجھ کو پیاری تھی انا
رکھ لیا زاد سفر اور ہم سفر جانے دیا
حضرت ناصح کی خوش افتادگی پہ داد ہے
خود جدھر سے آئے تھے سب کو ادھر جانے دیا
اس حریم ناز میں یوں بے محابا گفتگو
کچھ بھرم رکھا تو ہوتا تم کو گر جانے دیا
تجھ کو روکا جا رہا تھا روشنی تھی جب تلک
شام کے ڈھلتے سمے سورج کو گھر جانے دیا
آنکھ سپنے دیکھتی تھی آنسوؤں سے کیوں بھری
چاہتی تو پوچھ لیتی میں مگر جانے دیا
دوستا قسمت نہ ہو تو کوششیں بے کار ہیں
صبر کا پیمانہ ہم نے خود ہی بھر جانے دیا
دل مصر تھا بارہا کچھ جانچنے کو رک گئے
آخرش اس نے ہمیں بار دگر جانے دیا
بشریٰ مسعود