غزل
آخر وہ ہوا اب جو مرے من میں نہیں تھا
دشمن کوئی دل سا صف دشمن میں نہیں تھا
گردوں کا وہ مہتاب سُہاتا مجھے کیسے
جب چاند ہی میرا مرے آنگن میں نہیں تھا
ایسے میں بھلا جاتی تو کیوں جاتی چمن کو
وہ رشک گلستان ہی گلشن میں نہیں تھا
خود ذہن کے صحرا میں ہی بنتے تھے ہیولے
چہرہ کوئی دیوار کے روزن میں نہیں تھا
کیسے میں منا لیتی بھلا جشن بہاراں
جو جھولا جھلاتا وہ ہی ساون میں نہیں تھا
اب سوچتی ہوں عشق کی پاداش سےپہلے
یہ دل مرا اتنا کبھی الجھن میں نہیں تھا
خوشبو تجھے دوڑاتی تھی جو مثل غزالاں
وہ پھول منوّر ترے دامن میں نہیں تھا
منور جہاں زیدی