Aasmaan sar say ya peerooo Say zameen Jayee Gi
غزل
آسماں سر سے یا پیروں سے زمیں جائے گی
خودسری میری مجھے لے کے کہیں جائے گی
ہم جو لہراتے ہوئے سرخ پھریرا نکلے
گونج اس کی سرِ دربارِ لعیں جائے گی
پا بہ زنجیر ہیں کچھ خون اگلتے ہوئے لوگ
چومنے آج صلیب ان کی جبیں جائے گی
ناصحا تجھ کو مبارک ہو شریعت تیری
دولتِ درد فقیروں سے نہیں جائے گی
خودکشی ایسی حسینہ جو ہر اک دل میں بسے
ساتھ لے کر یہ بلا کتنے حسیں جائے گی
سب تماشہ ہے خموشی کے زباں ہونے تلک
خاک اڑاتی ہوئی وحشت بھی کہیں جائے گی
مجھ کو مقتل سے کوئی خاص ہے نسبت حامیؔ
خاک میری بھی کسی روز وہیں جائے گی
حمزہ حامی
Hamza Haami