آشنائی کمال تک پہنچی
بے کلی ماہ و سال تک پہنچی
زیرِ تفتیش تھا جنون مرا
بات ان کے جمال تک پہنچی
عاجزی مسترد ہوئی میری
اور تری ضد مجال تک پہنچی
پوچھئے اس صدا سے وجہِ عزا
جو سدا بے خیال تک پہنچی
آرزو ان کی قابلِ ترجیح
چاہ میری سوال تک پہنچی
اختلافِ خیال کے باعث
گفتگو اشتعال تک پہنچی
خواہشِ نفس میں شناسائی
صورتِ پائمال تک پہنچی
شاخِ گیسو پہ کیسا طعنہ لگا
جو تری بھوں ملال تک پہنچی
وقت کا رُخ بدل گیا تھا کہ جب
زندگی اعتدال تک پہنچی
حسن کس مرتبہ پہ تھا منظور
عاشقی جب جلال تک پہنچی
احمد منظور