غزل
آشیاں اجڑا مرا تو کیا ہوا
غم تو اس کا ہے چمن صحرا ہوا
تھا کچھ ایسا ہی تقاضا عشق کا
ہم نے دیکھا اپنا گھر لٹتا ہوا
تھا کبھی دل ایک شہر آرزو
رفتہ رفتہ یاس کا صحرا ہوا
ذرہ ذرہ ہے دل بے تاب سا
اک جہاں ہے درد کا مارا ہوا
کیا خبر تھی ہوگا منزل کا چراغ
اک مسافر راستہ بھٹکا ہوا
ضبط دل کا حوصلہ تو دیکھیے
غم کا دریا ہے ابھی ٹھہرا ہوا
آئنے کو دیکھ کر شرما گئے
آپ کو شاید مرا دھوکا ہوا
اپنی رسوائی سے میں خوش ہوں نظیرؔ
غم تو یہ ہے ان کا غم رسوا ہوا
سعادت نظیر