Aankhoo nay koi bhi tery jaisa Nahi dekha
غزل
آنکھوں نے کوئی بھی تیرے جیسا نہیں دیکھا
ایسا نہیں دیکھا کہیں ویسا نہیں دیکھا
دیکھے ہیں شفق رنگ افق رنگ کئی، پر!!
یوں چودہویں کے چاند سا چہرا نہیں دیکھا
خوشبوئیں دوڑ آتی ہیں پھولوں کو چھوڑ کر،
ميں نے تمہیں کبھی کہیں تنھا نہیں دیکھا۔
صحرا ہو سمندر ہو کہ دریاؤ بیاباں،
تا حدِ نظر کوئی بھی تم سا نہیں دیکھا
لٹ الجھی ہے کہ سلجھی ہے مگر میں نے کسی کے،
زلفوں پہ گھٹاؤں کا یوں پہرا نہیں دیکھا
کٹتے ہوئے دیکھی ہے اصولوں پہ محبت،
سر عشق کا دربار میں جھکتا نہیں دیکھا۔
مٹھی میں میری قید لکیریں تو دیکھ لیں،
آنکھوں میں سلگتا ہوا صحرا نہیں دیکھا۔
دیکھے تو بہت درد کے مارے ہیں وفا نے،
دیوانا مگر عشق نےمجھ سا نہیں دیکھا۔
یہ رنگ و بو کا امتزاج ہے کہ حادثہ،
جو بھی ہو میں نے وقت کو ٹھہرا نہیں دیکھا۔
وہم و گمان فہم و فکر سب تم ہی سے ہیں،
واللہ میں نے خود کو کب کا نہیں دیکھا۔
یہ میری محبت کا تقاضا ہے کہ میں نے،
تیرا نہیں دیکھا کبھی میرا نہیں دیکھا۔
ہر بار پہلی بار سے بھاری ہی لگے ہے،
کوئی وار بھی دل پہ کبھی ہلکا نہیں دیکھا۔
جیون میں میرے خون کے رشتے تو بہت ہیں،
تیرے سوا لیکن کوئی اپنا نہیں دیکھا۔
سوچا کہ کوئی خواب نہ چوری میرے کردے،
اس ڈر سے میں نے کوئی بھی سپنا نہیں دیکھا۔
آکاش ہو کہ فرش ہو آدم کے برابر،
میں نے تو سمندر کو بھی گھہرا نہیں دیکھا۔
مجھ کو ملی ورثے میں غریبوں سے محبت،
میں نے کبھی امراؤں کا طبقا نہیں دیکھا۔
وہ شخص کیا کہ جس نے تجوری پہ بیٹھ کر،
فٹ پاتھ پہ سویا ہوا بھوکا نہیں دیکھا۔
دیکھا تو بہت کچھ ہے مگر جان_ تمنا،
جو درد سے خالی ہو وہ قصبا نہیں دیکھا۔
تھذیب و ثقافت ہو کہ تاریخ و تمدن
سندھو تیرے جیسا میں نے دریا نہیں دیکھا
کہنے کو تو دیکھا ہے مجدد نے بہت کچھ،
پر چاند کو یوں بنتا سنورتا نہیں دیکھا۔۔۔
پیر غلام مجدد سرہندی مجدد
Peer Ghulam Mujadid sarhandi