غزل
آنکھوں کو تری دیکھیں گے مے خانہ کہیں گے
ہونٹوں سے اگر پوچھو گے پیمانہ کہیں گے
موقوف فقط ہم پہ نہیں یار اسے سن
جو تجھ سے ملے گا اسے دیوانہ کہیں گے
وابستہ تری ذات سے بستی ہے جہاں کی
جب تو نہ ہوا خلق میں ویرانہ کہیں گے
مرنے سے ترے ڈر کے کہیں راز کو اپنے
اس بات پہ مرتا ہے تو مر جا نہ کہیں گے
بدنامئی روزانہ ہے شب باشئی بے جا
کہنی تھی جو کچھ کہہ چکے سمجھا نہ کہیں گے
یہ بات جو ہے آج دم نقد عزیزاں
اس عشقؔ کو سنتے ہو کل افسانہ کہیں گے
خواجہ رکن الدین عشق