Aankhain Zaban Nahi Hain magar Bayzaban Nahi
غزل
آنکھیں زباں نہیں ہیں مگربے زباں نہیں
مجھ سے کو ئی خیال تمہارا نہاں نہیں
جز آنسوؤں کے شدّت شادی و غم سدا
فی الفور جذب دل کا کوئ ترجماں نہیں
پہنچے سن شعور کو جس دن سے آج تک
کس روز ہم پہ مشق ستم ،آسماں ! نہیں
خوش فہمیوں میں جی لۓکچھ دیرسوچ کے
شاید وہ غیر پر بھی کبھی مہرباں نہیں
اک سایۂ شجر تھا فقط لے گئ خزاں
سر پر مجھےنصیب کبھی سائباں نہیں
ثابت یہ تجربہ سے ہوا بھول تھی مری
یہ انجمن بھی حلقۂ دانشوراں نہیں
سینوں میں اپنے لےکےگئے اہل فن ہنر
دیکھا جو فی زمانہ کوئ قدر داں نہیں
دھرتی کو اب مٹاکے ستاروں پہ جا بسیں
ہیں یوں ہی کوششیں کہیں جاۓاماں نہیں
آۓ رضیّہ جس کے بلاوے پہ بزم میں
مہمان ڈھونڈ تے ہیں وہی میزباں نہیں
رضیہ کاظمی
Razia Kazmi