غزل
آنکھ امکان سے بھری ہوئی تھی
اور میں خواب میں ڈری ہوئی تھی
زخم گنتی تھیں انگلیاں اپنے
کوشش آئینہ گری ہوئی تھی
ہجر کیا خوب کیفیت لایا
ان دنوں کتنی شاعری ہوئی تھی
کیا اسی میں ہی عشق پنہاں تھا
اک نگہ وہ بھی سرسری ہوئی تھی
کیسا محسوس ہو رہا تھا تمہیں
جب مدینے میں حاضری ہوئی تھی
اس نے آنکھوں میں بات کی مجھ سے
خامشی ہونٹ پر دھری ہوئی تھی
سبز تتلی تھی راشدہؔ ماہین
نرگسی پھول پر مری ہوئی تھی
راشدہ ماہین ملک