Aankh kay zandaan Main Rakha Gaya
غزل
آنکھ کے زندان میں رکھا گیا
ہجر کو امکان میں رکھا گیا
دل کے اندر کیا جگہ خالی نہیں؟
درد کو دالان میں رکھا گیا
ہائے دوہری ہو گئی میری کمر
ایسا کیا سامان میں رکھا گیا
زندگی کر لی گئی اغوا مری
اور مجھے تاوان میں رکھا گیا
پوچھتی پھرتی ہوں سارے شہر سے
کیوں دیا طوفان میں رکھا گیا
فلسفہ کیا ہے کہ کل زہرا بتول
زخم روشندان میں رکھا گیا
زہرابتول
Zehra Batool