آنکھ کے شہر میں رہتے ہو سمندر کی طرح
صبح کی دھوپ ہو اور شام کے امبر کی طرح
جب تلک چاند کا یہ عکس ندی میں اترے
آو باتیں کریں ہم تم کسی منظر کی طرح
کوئی دیوار ہو دل اس کو گرا سکتا ہے
پیار کی دوڑ سے بندھ کر کسی منتر کی طرح
زندگی یوں تو کڑی دھوپ کی مانند ہے مگر
مجھ میں تم آن بسے ماہ دسمبر کی طرح
آج کے دور میں کیا ہو گیا انسانوں کو
سرد لہجے ہوئے اور دل ہوئے پتھر کی طرح
آئرین فرحت