آپ جس کو شباب کہتے ہیں
ہم اسی کو شراب کہتے ہیں
زندگی درد و غم کا دریا ہے
آپ اس کو حباب کہتے ہیں
جو کھٹکتے ھیں ان کی آنکھوں میں
ہم انہیں بھی جناب کہتے ہیں
بس یہی فکر ہم کو لاحق ہے
وہ ہمیں کیوں خراب کہتے ہیں
تیری مخمور جوانی کی قسم
ہم تجھے لاجواب کہتے ہیں
جو اچکتے ہیں میرے شعر میاں
سب انہیں کامیاب کہتے ہیں
اسکے ہونٹوں کے لمس سے جانا
کیوں اسے سب گلاب کہتے ہیں
غم بھلا کر جو مسکراتا ہے
اس کو شائق شہاب کہتے ہیں
(سید شائق شہاب)