Aap Rehtay Hain Is qadar Khamoosh
غزل
آپ رہتے ہیں اس قدر خاموش
لگنے لگتا ہے سارا گھر خاموش
اب مری جان پر بنی ہوئی ہے
اور ہے میرا ہم سفر خاموش
میں نے دستک ہزار دی لیکن
تیرے جیسا ہے تیرا در خاموش
پھر کہانی کی بات مت کرنا
مار ڈالے نہ تم کو ڈر خاموش
لب پہ چپ تھی تو کچھ گزارا تھا
اب تو رہنے لگی نظر خاموش
مرحلے طے ہوئے محبت کے
ہاں، نہیں، پر، اگر، مگر خاموش
مجھ پہ سکتہ ہے فرشِ خاکی پر
وہ حسینہ ہے بام پر خاموش
بات لازم ہے چاہے کڑوی ہو
ایسے کٹتا نہیں سفر خاموش
چیختا ہے فراق آخرِ شب
بت کے جیسا ہے یہ عمر خاموش
عابد عمر
Aabid Umar