غزل
آگ کے صفحے پہ نقش ما و من رہ جائے گا
راکھ میں سچائی کا زندہ بدن رہ جائے گا
حرف کی بارش تھمے تو دھند سے معنی اگیں
لکھنے والا آپ سے گزرے گا فن رہ جائے گا
خواہشوں کا مینہ ننگی آنکھ سے جب بہہ چکا
چیختا چنگھاڑتا پیچھے بدن رہ جائے گا
یوں خلا بازوں پہ برسیں گے شہاب ثاقب اب
جسم جل جائیں گے باقی پیرہن رہ جائے گا
جنڈ پر پھر سے کسی گھبرو کا ترکش رہ گیا
حشر کا میدان بن کے اب یہ بن رہ جائے گا
آگ کی دیوار پھاند آئے تو ہر منزل ہے سہل
سر کی منزل سے کہیں پیچھے کفن رہ جائے گا
طاہر حںفی