غزل
آہ کو تھی جو کبھی حسرت تاثیر سو ہے
تھی جو بگڑی ہوئی عشاق کی تقدیر سو ہے
دل میں اس کے نہ ہوئی راہ کسی صورت سے
تھی جو تقدیر میں ناکامیٔ تدبیر سو ہے
مل کے دیکھا تو وہ کچھ اور ہی نکلا لیکن
دل میں اک اس کی بنائی تھی جو تصویر سو ہے
آپ کے ظلم سے پہلے بھی خدا شاہد ہے
یوں ہی رہتی تھی طبیعت مری دلگیر سو ہے
شہر الفت کی تباہی کی نشانی اے دوست
دل کی تھی ایک ہی اجڑی ہوئی تعمیر سو ہے
ان سے کرتا ہوں وفا اس پہ جو چاہیں سو کہیں
تھی ہمیشہ سے یہی اک مری تقصیر سو ہے
تھا کبھی پہلے نہ آزاد نہ اب ہوں میں جلیلؔ
عشق کی تھی جو مرے پیر میں زنجیر سو ہے
جلیل قدوائی