loader image

MOJ E SUKHAN

آیا کبھی خیال تو دل سے لپٹ گیا

غزل

آیا کبھی خیال تو دل سے لپٹ گیا
کیسے سما کے پھر کوئی جیون سے ہٹ گیا

پروا چلی تھی گانٹھ کو آنچل سے باندھنے
دامن گھٹا کا ہاتھ میں آتے ہی پھٹ گیا

بیٹھے ہیں شام اوڑھ کے تنہائیوں میں ہم
اک ہنس اپنی ڈار سے جیسے ہو کٹ گیا

بدلا نگر نے باڑھ کا منہ اپنی سمت سے
ندیا میں بہہ کے گاؤں کا چھوٹا سا تٹ گیا

جھونکا سا تھا کیا چلبلا پریوں کے دیش کا
برسوں کی سادھنا کا وہ آسن الٹ گیا

بھولے سے آیا میگھ کبھی دھوپ کے نگر
من مور ناچنے سے وہ پہلے ہی چھٹ گیا

تلواریں مندروں سے نکل کر جھپٹ پڑیں
صدیوں پرانا سر کا چمکتا مکٹ گیا

دیپک قمر

ایک تبصرہ چھوڑیں