غزل
آ جائیں کام اس لیے گِن کے بہاو میں
پھینکےہیں میں نےکتنے ہی تنکے بہاو میں
مفہوم بے بسی کا ذرا اُن سے پوچھیے
دریا بہا کے لے گیا جِن کے بہاو میں
سیلاب ہٹ رہا ہے پہنچ کر مقام سے
آنسوگرے ہیں دوستا کِن کے بہاو میں
ٹھہراو مت کسی کو ِان آنکھوں کا ذمہ دار
شامل تمہارا ہاتھ ہے ان کے بہاو میں
کچھ نامراد لوگوں نے میرے تمام خواب
کل شب بہائے مجھ سے ہی” چھن ” کے بہاو میں
اسد رضا سحر