آ لوٹ چلیں پھر سے اسی پار مرے یار
اس شہر کے اچھے نہیں آثار مرے یار
جب بات سنورتی ہو محبت کی زباں سے
پھر ہاتھ میں رکھتے نہیں تلوار مرے یار
اس بھیڑ میں کھو جائے گا ہو جائے گا تنہا
میں کرتا نہ تھا تجھ کو خبردار مرے یار
اب پیروں میں رکھ لے یا مرے سر پہ سجا دے
ہے تیرے کرم پر مری دستار مرے یار
جب مجھ کو کیا آئنہ اک دستِ ہنر نے
ہاتھوں میں لیے سنگ تھے تیار مرے یار
وہ لوگ ہوئے سنگ تراشوں کی ضرورت
جو خود کو سمجھتے رہے اوتار مرے یار
مشتاق خلیل