غزل
آ کر پھرا نہ نام کو آنکھوں میں خواب شب
کیا کیا رہا ہے دل کو مرے اضطراب شب
واں اس نے جام مے دئے غیروں کو اور یاں
چھلکا کیا ہے کاسۂ چشم پر آب شب
مانگا جو ایک بوسہ تو بولے کہ راہ لو
اک عمر میں دیا تو دیا یہ جواب شب
اس رخ کو دیکھ بحر خجالت میں کچھ نہ پوچھ
شرمندہ ہو کے ڈوب گیا ماہتاب شب
سرگرم ناز دیکھ کے غیروں کے ساتھ اسے
جل بھن کے ہو گیا دل شیدا کباب شب
کل صبح تک تھیں آپ کی آنکھیں جھکی ہوئیں
سچ کہیے کس کے ہاتھ سے پی تھی شراب شب
زلف بتاں کی یاد میں اے عیشؔ کیا کہوں
دل نے مرے اٹھائے ہیں کیا پیچ و تاب شب
حکیم آغا جان عیش