ابرو نے چشم ناز نے مژگان یار نے
گھائل کیا مجھے انہیں دو تین چار نے
واعظ غرض یہ تھی کہ در بت کدہ پہ ہم
در پردہ کل گئے تھے کسی کو پکارنے
عاشق ہزاروں صورت پروانہ گر پڑے
الٹی نقاب رخ سے جو محفل میں یار نے
سودا رہا کہ عشق بتاں میں ہے فائدہ
ہم کو کیا تباہ اسی کار و بار نے
کیوں بار بار جائیں نہ ہم کوئے یار میں
مجبور کر دیا ہے دل بے قرار نے
لازم نہیں بتو تمہیں دعویٰ خدائی کا
پیدا کیا ہے اس لئے کیا کردگار نے
مجبور ہو کے بیٹھ رہے کوئے یار میں
ہم کو جواب دے دیا جب اختیار نے
دل بہر نذر یار کے آگے جو لے گئے
بولا کہ آپ لائے ہیں صدقہ اتارنے
صحرا میں ٹھہرے اور کبھی دشت میں پھرے
ہم کو دکھائی سیر یہ فصل بہار نے
اوگھٹؔ غرور کیوں نہ بتوں کو ہو اس قدر
ان کو حسیں بنایا ہے پروردگار نے
اوگھٹ شاہ وارثی