ابر برسے گا تو پیاسا نہیں رہنے دے گا
تری وحشت کا یہ صحرا نہیں رہنے دے گا
عزمِ راسخ ہی ترا رہنما بن جائے گا
کوئی رستہ بھی ادھورا نہیں رہنے دے گا
یہ جو فرعون نما لوگ نظر آتے ہیں
آسماں ان کا یہ طرہ نہیں رہنے دے گا
دن نیا ہوگا تو جاگیں گی امنگیں دل میں
کوئی غم کوئی بھی نوحہ نہیں رہنے دے گا
گردشِ شام و سحر رنگ بھی دکھلائے گی
یہ جو ہے وقت کا چہرہ نہیں رہنے دے گا
دور بدلے گا تو سب گھاؤ بھی بھر جائیں گے
آنکھوں میں تیری یہ دریا نہیں رہنے دے گا
وقت ظالم ہے صبیحہ ذرا تو دھیان سے سن
اب کھنکتا ترا سکہ نہیں رہنے دے گا
صبیحہ خان صبیحہ