Ab aur deegi Hamain kia Khushi Zamany ki
غزل
اب اور دیگی ہمیں کیا خوشی زمانے کی
ہمیں تو غم میں بھی عادت ہے مسکرانے کی
محبّتوں کے کئی راز منکشف ہوں گے
کُھلےگی جب بھی حقیقت مرے فسانے کی
کئی تو آج اِسی سوچ میں پریشاں ہیں
فلاں سے دوستی کیوں ہو گئی فلانے کی
تمہاری دید مرے واسطے ہے نذرانہ
تمہارے واسطے زحمت ہے آنے جانے کی
ہر ایک بزم میں ہے آج تتلیوں کا ہجوم
ادائے خاص ہے یہ بھی نئے زمانے کی
شجر کے سائے میں جو دل مرا لبھاتی تھی
وہ نغمگی تھی پرندوں کے چہچہانے کی
جگر پہ تیر چلا تُو عدیل کے سیدھا
یہی ہے سب سے مناسب جگہ نشانے کی
اسرار عدیل نور پوری
Israr Adeel Noor puri