اب تو جواب تک نہیں ملتا سلام کا
شاید کہ میں رہا نہیں اب ان کے کام کا
سنتے تھے ایک دور کبھی وہ بھی آئے گا
رہ جائے گا خلوص و وفا صرف نام کا
چالاک ہوگئے ہیں کچھ احباب اس قدر
رکھتے ہیں دوست چھانٹ کر اونچے مقام کا
کہتے ہیں آؤ بیٹھو کرو بات مختصر
آئیں گے لوگ اور بھی وعدہ ہے شام کا
کیجے گلہ نہ دل پہ کوئی بار لیجئے
انجام بھی برا ہے ہوس کے غلام کا
خاور کمال صدیقی