اب تک تمہارے جیسا سہارا نہیں ملا
دریا بہت ملے ہیں کنارہ نہیں ملا
ایسا نہیں کہ میں ہی انا کا اسیر تھا
وہ بھی تو پھر پلٹ کے دوبارہ نہیں ملا
وہ گاؤں جس کو چھوڑ کے ہم شہر آگئے
جب لوٹ کر گئے تو ہمارا نہیں ملا
اک سمت پورا چاند تھا اور اک طرف تھی وہ
پھر اس کے بعد ایسا نظارہ نہیں ملا
دریا میں ہم نے پھینکے تھے سکے تو ساتھ ہی
میرا تو مل گیا تھا تمہارا نہیں ملا
تم خوش نصیب ہو وہ تمہیں خود سے مل گیا
میں نے تو کتنی بار پکارا نہیں ملا
یاسر سعید صدیقی
اب تک تمہارے جیسا سہارا نہیں ملا