اب در ہی سلامت ہے نا دیوار سلامت
صد شکر عمارت کے ہیں آثار سلامت
افلاس کے لشکر نے ہے وہ قتل گری کی
سر کوئی سلامت ہے نہ دیوار سلامت
پتھرائے ہیں لب اور زباں گنگ ہے لیکن
آنکھوں میں ہے آنکھوں کی وہ گفتار سلامت
ہر غم میں وہ غمخواری مرے غم کی ہے کرتا
کیا غم ہے اگر غم کا ہے غمخوار سلامت
تم بچھڑے ہو آتی ہے مگر یاد تمہاری
اجڑے ہوئے گلشن کی ہے مہکار سلامت
نغماتِ فسردہ کی صدا آتی ہے انؔور
لگتا ہے کہ اس دل کے ہیں کچھ تار سلامت
انور ضیا مشتاق