اب کہاں آئے گی ہوا برداشت
حبس کا دور ہے دلا برداشت
عمر ہی کیا ہے خوشبوئے گل کی
اور کچھ دیر اے صبا برداشت
ہم نوا تو بنا لیا مجھ کو
کر سکو گے مری نوا برداشت
خلق سے رشتہْ امید نہ توڑ
اب دعا ہو کہ بد دعا برداشت
کھینچ لے پاؤں خار زاروں سے
ورنہ صد چاک در قبا برداشت
جب بھی پوچھا کسی نے جبر کا حل
میں نے بے ساختہ کہا برداشت
یہ اشارہ ہے کس قیامت کا
حبس برداشت نے ہوا برداشت
درِ امکاں کھلا رہے انصر
کرنا پڑ جائے جانے کیا برداشت
سید انصر