اتر کے جھیل میں جب آفتاب مرنے لگے
زمیں کے دل پہ مسلظ عذاب مرنے لگے
زمیں کے ہونٹوں پہ ایسے سوال زندہ ہوئے
کہ آسمانوں کے سارے جواب مرنے لگے
میں زندہ ہوکے بھی ہوں اس لحاظ سے مردہ
کہ میرے نام ترے احتساب مرنے لگے
نمی زمین کے کانٹوں نے چوس لی ساری
گلاب رت میں مہکتے گلاب مرنے لگے
کہاں ہے مجھ کو فراموش کرنے والے تو
خبر بھی ہے کہ یہاں میرے خواب مرنے لگے
ستارے آنکھوں کہ بجھنے لگے نسیم آخر
نگہ میں تھے جو بدن ماہتاب مرنے لگے
نسیم سحر