Itna Zaleel Ho Gaya Baitha Hoon Haar Kar
غزل
میں تو ذلیل ہو گیا بیٹھا ہوں ہار کر
عورت سے اب ملوں گا میں اردو سنوار کر
اس نے لکھا تھا خط میں مجھے آشکار کر
میں سمجھا لکھ رہی ہے مجھے آ شکار کر
مجھ کو تو جھوٹی لگتی ہے محبوبہ بھی مری
میں باپ کیسے بن گیا بس آنکھ مار کر
میں اپنی پہلی بیوی کو سمجھا تھا ماسی کل
اب کہہ دیا ہے سختی سے ڈیلی سنگھار کر
مفتی بھی رونا روتا ہے مہنگائی کا ہی اب
ڈر ہے کبھی وہ کہہ نہ دے بیوی ادھار کر
ویسے تو اس کی بیٹی بھی اب نانی بن چکی
پھر بھی کسی میاں پہ نہیں اعتبار کر
بیوی کی طرح دیکھیے وہ بھی برس پڑی
بیوی ہی جیسا سمجھا تھا جس کو پکار کر
اس نے یہ کب کہا تھا کہ ڈوری پہ لٹکی ہے
شلوار بس کہا تھا کے دے دے اتار کر
چت اس کے ہاتھوں ہوتے ہی مجھ کو پتہ چلا
کچھ لطف جیتنے سے زیادہ ہے ہار کر
میں نے کیا جو وار ہوا (اور) وہ ( روا )
مولا نے فن یہ مجھ کو دیا ہے نکھار کر
( مرزا ) کے حرف ملتے ہیں پورے مزار میں
مرزا کے واسطے نہیں فکرِ مزار کر
کچھ لوگ شعر سمجھیں گے میرے صدی کے بعد
سو سال بعد کا مجھے شاعر شمار کر
حیدر جلیسی کی طرح توڑو نہیں بخار
ایسے ( خراب) مت میاں اپنا بخار کر
حیدر جلیسی حرف شناس
Haider jaleesi Harf Shanas