اجڑا ہوا نگر ہے یہاں اور کچھ نہیں
تنہائیوں کا ڈر ہےیہاں اور کچھ نہیں
کشتی کنارے بحر سے اب دیکھتے ہو کیا
بپھرا ہوا بھنور ہے یہاں اور کچھ نہیں
دیکھو گے اب کہاں کسی پرواز کا سماں
بس اک شکستہ پر ہے یہاں اور کچھ نہیں
قدموں کی چاپ ہے نہ کوئی آشنا صدا
آسیب دربدر ہے یہاں اور کچھ نہیں
کیسی تلاش کون سی منزل کہاں کی راہ
گردِ رہِ سفر ہے یہاں اور کچھ نہیں
عمرِ رواں کا سیل ٹھہرتا نہیں کہی
یہ ایک ہی خبر ہے یہاں اور کچھ نہیں
بزمِ جہاں کا حسنِ جواں دیکھتے چلو
اک مہلتِ نظر ہے یہاں اور کچھ نہیں
جمیل یوسف