loader image

MOJ E SUKHAN

20/04/2025 08:34

*احمد فراز کی نظم "اے عشق جنوں پیشہ” کا وجودیاتی (Existentialist) تنقیدی تجزیہ*

*احمد فراز کی نظم "اے عشق جنوں پیشہ” کا وجودیاتی (Existentialist) تنقیدی تجزیہ*
(آصف علی آصف)
*عروضی ہیئت:*
یہ پابند نظم بحرِ زمزمہ میں کہی گئی ہے۔ہر مصرعہ تین فّعلُن یا فّعِلُن کے ارکان پر مشتمل ہے۔ہر مصرعے کی تختی ہے: فّعلُن فّعِلُن فّعلُن
نظم پانچ ترکیب۔بند بندوں میں منقسم ہے۔ہر بند دس مصرعوں پر مشتمل ہے، سوائے چوتھے بند کے جس میں بند کے متعین ساخت سے انحراف برتتے ہوئے تیرہ مصرعے ہیں۔یہ پیٹرن سے انحراف شعوری بہاؤ کے باعث ہوگیا جو نظم کے حسن کو بڑھاتا ہے۔اختتام نظم کے عنوان "اے عشقِ جنوں پیشہ” کو دوبار مکرّر کرکے کیا ہے۔
*نظم کا موضوع*
وجودیت (Existentialism) ایک ایسا فلسفیانہ اور ادبی نظریہ ہے جو انسانی آزادی، انفرادیت، بے معنویت اور جدوجہد کو مرکز میں رکھتا ہے۔ ژاں پال سارتر (Jean-Paul Sartre)، فریڈرک نطشے (Friedrich Nietzsche)، البرٹ کامیو (Albert Camus)، اور سموئیل بیکٹ (Samuel Beckett) جیسے فلسفیوں اور ادیبوں نے وجودیاتی فکر کو فروغ دیا جہاں انسان کو کسی پہلے سے طے شدہ معانی (Pre-determined Meaning) کے بجائے اپنی زندگی کے معانی خود تخلیق کرنے پڑتے ہیں۔
اگر احمد فراز کی نظم "اے عشق جنوں پیشہ” کو وجودیاتی ادبی تنقید کے تناظر میں دیکھا جائے تو یہ محض ایک محبت اور شکستِ محبت کی داستان نہیں رہتی بلکہ ایک فرد کی اپنی زندگی، اپنے فیصلوں اور اپنی آزادی کے ساتھ جدوجہد کی علامت بن جاتی ہے۔ اس نظم میں عشق محض ایک رومانوی جذبہ نہیں بلکہ ایک وجودیاتی کشمکش (Existential Struggle) بھی ہے جہاں عاشق اپنی زندگی کے معانی خود تخلیق کر رہا ہے اور ہر تکلیف کو قبول کرتے ہوئے آگے بڑھنے کا فیصلہ کرتا ہے۔
*۱۔ زندگی کی بے معنویت اور وجودیاتی بحران (Absurdity & Existential Crisis)*
"عمروں کی مسافت سے
تھک ہار گئے آخر
سب عہد اذیت کے
بے کار گئے آخر”
یہاں وجودیاتی بحران (Existential Crisis) واضح نظر آتا ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ زندگی میں گزارے گئے اذیت کے تمام لمحات بے معنی ثابت ہوئے۔وجودیت کے مطابق زندگی میں پہلے سے کوئی معانی موجود نہیں ہوتے بلکہ انسان خود اپنی زندگی کے معانی تخلیق کرتا ہے۔
یہاں شاعر اس بحران کا سامنا کر رہا ہے کہ کیا محبت، جدوجہد اور قربانی کا کوئی حقیقی مقصد تھا یا یہ سب ایک بے معنی سفر تھا؟
یہ البرٹ کامیو کے "بے معنویت” (Absurdism) کے نظریے سے جُڑا ہوا سوال ہے کہ اگر دنیا میں کوئی فطری معانی نہیں تو پھر انسان کو کیسے جینا چاہیے؟
*۲۔ آزاد انتخاب اور فرد کی خودمختاری (Freedom & Individual Choice)*
"لو کوچ کیا گھر سے
لو جوگ لیا ہم نے
جو کچھ تھا دیا ہم نے
اور دل سے کہا ہم نے
رکنا نہیں درویشا”
یہاں شاعر اپنی زندگی کے فیصلے خود لے رہا ہے جو کہ وجودیت کا ایک بنیادی اصول ہے۔
"کوچ کرنا”، "جوگ لینا”، اور "رکنا نہیں” جیسے الفاظ ژاں پال سارتر کے نظریہ آزادی (Freedom of Choice) کی عکاسی کرتے ہیں جہاں فرد کو اپنی تقدیر خود بنانی ہوتی ہے۔
شاعر کسی پہلے سے طے شدہ سماجی یا مذہبی معانی پر انحصار نہیں کر رہا بلکہ خود اپنے راستے کا تعین کر رہا ہے۔
یہ سارتر کے "Existence Precedes Essence” کے اصول سے مطابقت رکھتا ہے، جہاں انسان اپنی شناخت خود بناتا ہے نہ کہ کسی طے شدہ تقدیر کے مطابق۔
*۳۔ محبت بطور وجودیاتی امتحان (Love as an Existential Struggle)*
"کیا کیا نہ محبت کی
کیا کیا نہ جیا ہم نے”
یہاں محبت صرف ایک رومانوی تجربہ نہیں بلکہ ایک وجودیاتی امتحان (Existential Trial) ہے۔
وجودیت کے مطابق محبت محض ایک جذباتی لگاؤ نہیں بلکہ ایک فلسفیانہ سوال بھی ہے: "کیا ہم اپنی محبت کو معانی دے سکتے ہیں، یا یہ بھی ایک بے معنی جذبہ ہے؟”
شاعر کہتا ہے کہ اس نے محبت میں سب کچھ دیا لیکن پھر بھی کوئی یقینی نتیجہ نہیں نکلا۔
یہ البرٹ کامیو کے "سیسفیس کے افسانے” (The Myth of Sisyphus) کی طرح ہے جہاں انسان ایک بے مقصد کام کرتا رہتا ہے مگر پھر بھی اس کی جدوجہد میں ایک وقار ہوتا ہے۔
یہاں عاشق محبت میں اپنی پوری ہستی کو جھونک کر ایک نئے وجودیاتی تجربے سے گزرتا ہے جہاں وہ اپنے زخموں کے ساتھ جینا سیکھتا ہے۔
*۴۔ تکلیف اور خود تخلیق (Pain & Self-Creation)*
"سو زخم ابھر آئے
جب دل کو سیا ہم نے
کیا کیا نہ محبت کی
کیا کیا نہ جیا ہم نے”
یہاں تکلیف، محبت اور جینے کے عمل کو ایک ساتھ جوڑا گیا ہے جو وجودیت کے اصولوں سے مطابقت رکھتا ہے۔
وجودیاتی فلسفہ کہتا ہے کہ تکلیف اور مصائب زندگی کا لازمی حصہ ہیں لیکن انسان کو اپنی تکلیف کو قبول کر کے خود کو نئے معنی دینے ہوں گے۔
شاعر زخموں کو چھپانے کے بجائے انہیں قبول کر رہا ہے اور اپنی شناخت ان تجربات کے ذریعے بنا رہا ہے۔
یہ نطشے کے "Will to Power” (اقتدار کی خواہش) کے نظریے سے ملتا جلتا ہے جہاں فرد اپنی تکلیف کو طاقت میں بدلتا ہے اور اپنی شناخت خود تخلیق کرتا ہے۔
*۵۔ زندگی ایک مسلسل سفر: کوئی آخری منزل نہیں (Life as a Journey, Not a Destination)*
"یوں ہے کہ سفر اپنا
تھا خواب نہ افسانہ
آنکھوں میں ابھی تک ہے
فردا کا پری خانہ”
یہاں شاعر زندگی کو ایک مسلسل سفر کے طور پر دیکھ رہا ہے جس میں کوئی حتمی منزل نہیں۔
وجودیت کے مطابق انسان کسی آخری مقصد کے لیے نہیں جیتا بلکہ جینا بذاتِ خود ایک مقصد ہے۔
"آنکھوں میں ابھی تک ہے فردا کا پری خانہ” : اس کا مطلب یہ ہے کہ مستقبل ابھی بھی ایک خواب کی طرح ہے جہاں کچھ بھی ممکن ہو سکتا ہے۔
یہ خیال سارتر کے "Being and Nothingness” سے مطابقت رکھتا ہے جہاں مستقبل ہمیشہ کھلا ہوتا ہے اور انسان کو اپنی شناخت مسلسل تخلیق کرنی پڑتی ہے۔
*۶۔ انفرادیت اور تنہائی (Individualism & Isolation)*
"کچھ اہل ریا بھی تو
ہم راہ ہمارے تھے
رہرو تھے کہ رہزن تھے
جو روپ بھی دھارے تھے”
یہاں شاعر اس بات پر زور دیتا ہے کہ زندگی میں کئی چہرے ملتے ہیں مگر آخر میں فرد کو اپنی راہ خود بنانی ہوتی ہے۔
وجودیت کہتی ہے کہ ہر فرد بنیادی طور پر تنہا ہوتا ہے اور اسے اپنی حقیقت خود دریافت کرنی ہوتی ہے۔
شاعر کے ساتھ کئی لوگ تھے مگر وہ سب الگ الگ مقاصد رکھتے تھے اور آخر میں ہر شخص اپنی شناخت کے لیے تنہا رہ جاتا ہے۔
یہ سارتر کے "Existential Loneliness” کے تصور سے جُڑا ہوا ہے جہاں فرد کا اصل تعلق اس کی اپنی ذات کے ساتھ ہوتا ہے نہ کہ کسی سماجی گروہ کے ساتھ۔
*۷۔ نظم کا اختتام: ہمت، عملیت، اور جنون (Courage, Rebellion & Madness)*
✔ "اے ہمت مردانہ
صد خارہ و یک تیشہ
اے عشق جنوں پیشہ
اے عشق جنوں پیشہ”
یہاں شاعر ہمت، دیوانگی اور بغاوت کو زندگی کے بنیادی اصول کے طور پر اپنا رہا ہے۔
وجودیاتی فلسفہ کہتا ہے کہ اگرچہ زندگی میں کوئی پہلے سے طے شدہ معانی نہیں مگر انسان اپنی دیوانگی اور جدوجہد سے خود کو ایک نئی پہچان دے سکتا ہے۔
یہ نطشے کے "Beyond Good and Evil” کے فلسفے سے جڑا ہوا ہے جہاں حقیقی آزادی اسی میں ہے کہ فرد اپنی ہستی کو خود تخلیق کرے چاہے وہ دنیا کی نظر میں "جنون” ہی کیوں نہ ہو۔
*نتیجہ: "اے عشق جنوں پیشہ” ایک وجودیاتی نظم ہے۔*
کیونکہ یہ نظم زندگی کی بے معنویت، فرد کی خودمختاری، محبت کے وجودیاتی پہلو، تکلیف کی قبولیت اور مسلسل سفر کے فلسفے کو بیان کرتی ہے۔
یہ نظم وجودیاتی بحران (Existential Crisis) اور آزادی (Freedom of Choice) کے بنیادی اصولوں پر پوری اترتی ہے۔
یہ نظم محض محبت کی کہانی نہیں بلکہ ایک فرد کی اپنے وجود سے جنگ اور اپنی شناخت کی تخلیق کا بیانیہ ہے۔
آصف علی آصف
Facebook
Twitter
WhatsApp

ادب سے متعلق نئے مضامین