loader image

MOJ E SUKHAN

17/06/2025 15:42

*احمد ہمیش کی نظم* *”لاشعور (سفید پانیوں کے نام)* *کا ساختیاتی تنقیدی جائزہ*

*احمد ہمیش کی نظم*
*”لاشعور (سفید پانیوں کے نام)*
*کا ساختیاتی تنقیدی جائزہ*
تحریر: آصف علی آصف (آصف)
ساختیات (Structuralism) کے تحت ہم اس آزاد نظم کی بنیادی ساخت، اس کے علامتی نظام، اور عناصر کے باہمی تعلقات کو سمجھنے کی کوشش کریں گے۔ یہ نظم لسانی رشتوں، ثنائی تقابلوں (Binary Oppositions)، اور علامتوں کے جال سے بنی ہے جو اس کے مرکزی مفہوم کو جنم دیتے ہیں۔
*۱۔ ثنائی تقابلات (Binary Oppositions):*
ساختیات کے مطابق ہر متن ثنائی تقابلات پر مبنی ہوتا ہے جو اس کے معنی کو تشکیل دیتے ہیں۔ اس نظم میں درج ذیل تقابلات مرکزی کردار ادا کرتے ہیں:
– *سفید پانی مقابل سیاہ تار:* سفید پانی لاشعور کی پاکیزگی اور بہاؤ کی علامت ہے، جبکہ سیاہ تار وجودی تنہائی اور رکاوٹوں کو ظاہر کرتے ہیں۔ یہ تقابل "امید مقابل مایوسی” کے تناظر میں بھی کام کرتا ہے۔
– *گاؤں مقابل جہاز:* گاؤں ماضی، روایت، اور سکون کی علامت ہے جبکہ جہاز جدت، سفر، اور غیر یقینی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔
– *دھول مقابل بارش:* دھول جمود اور ماضی کے بوجھ کو ظاہر کرتی ہے جبکہ بارش تطہیر اور تبدیلی کی قوت ہے۔
یہ ثنائی تقابلات نظم کو ایک *ڈائنامک توازن* دیتے ہیں جہاں ہر عنصر اپنے مخالف کی موجودگی سے معنی پاتا ہے۔
*۲۔ علامتوں کا نظام (System of Signs):*
ساختیات کے مطابق علامتیں اپنے آپ میں معنی نہیں رکھتیں بلکہ معنی دوسری علامتوں سے ان کے رشتے سے بنتا ہے۔ نظم میں علامتوں کا ایک مربوط جال ہے:
– *پانی:* یہ علامت مسلسل بدلتی ہے۔ "سفید پانی” لاشعور، "ندی” وقت کا بہاؤ، اور "بارش” تطہیر کی طرف اشارہ ہے۔ پانی کے یہ مختلف روپ ایک دوسرے سے جُڑے ہیں اور *زندگی کے تسلسل* کو ظاہر کرتے ہیں۔
– *پل اور سنگترے کے قاش:* پل "ماضی اور حال کے درمیان رابطے” کی علامت ہے مگر سنگترے کے قاش (سرخ رنگ) اس رابطے کی نزاکت اور عارضیت کو ظاہر کرتے ہیں۔
– *دھند اور گھر:* دھند غیر یقینی یا لاشعور کی گہرائی ہے، جبکہ گھر (مون بستیوں میں) انسانی وجود کی محدودیت کی علامت ہے۔
یہ علامتیں ایک دوسرے کے بغیر ادھوری ہیں، اور اسی ربط میں نظم کا مکمل مفہوم پنپتا ہے۔
*۳۔ لسانی ساخت (Linguistic Structure):*
نظم کی لسانی ساخت بھی اس کے ساختیاتی تجزیے کا اہم حصہ ہے:
– *فعلوں کا استعمال:* نظم میں ماضی کے افعال ("سو گیا”، "بکھر گئے”، "دھل گئی” ، "چمک اٹھی”، "بج اٹھے”) کی حرکیاتی تکرار ہے۔ یہ **وقت کے تسلسل** اور **حال کی غیر مستقل مزاجی** کو ظاہر کرتا ہے۔
– *تکرار (Repetition):* لفظ "سفید پانی” اور "زاویوں کی دھول” کی تکرار نظم کو ایک *لَے* دیتی ہے جو لاشعور کے دھرے دار ہونے کی طرف اشارہ ہے۔
– *منفی جملے:* "نہ جادوؤں کی بھیڑ تھی نہ لوگ تھے” جیسے جملے *عدم کی علامتیت* کو اُبھارتے ہیں جو ساختیاتی طور پر "موجودگی” کے مقابل "غیر موجودگی” کو نمایاں کرتے ہیں۔
*۴۔ بیانیہ ڈھانچہ (Narrative Structure):*
نظم کا بیانیہ خطی (Linear) نہیں بلکہ *ٹکڑوں میں بٹا ہوا* ہے جو لاشعور کی فطری ساخت کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ ٹکڑے ایک دوسرے سے علامتی رشتوں کے ذریعے جُڑے ہیں۔ مثال کے طور پر:
*نیند (سونا) لاشعور میں داخلہ۔
*ماضی کی یادوں کا بہاؤ (گیت، گاؤں، ندی) لاشعور کی پرتیں۔
*موجودہ کی ویرانی (سرد ریت، دھند) وجودی بحران۔
*امید کا جہاز ساختی تضاد (Antinomy)۔
یہ ٹکڑے اکٹھے ہو کر ایک *کل* بناتے ہیں جو لاشعور اور شعور کے درمیان کشمکش کو پیش کرتا ہے۔
*۵۔ ساختیاتی تضادات (Structural Antinomies):*
ساختیات میں تضادات متن کو متحرک رکھتے ہیں۔ اس نظم میں یہ تضادات درج ذیل ہیں:
– *حرکت بمقابلہ جمود:* "گیت گھاٹ گھاٹ پھیلتے” میں حرکت ہے مگر "پتھروں کی ڈھیریاں” جمود کی علامت ہیں۔
– *وحدت بمقابلہ کثرت:* "سفید پانی” وحدت (لاشعور کی یکسانیت) کی طرف اشارہ ہے جبکہ "گیتوں” اور "ڈھیریوں” میں کثرت ہے۔
– *روشن بمقابلہ تاریک:* "دھوپ میں چمک” اور "سیاہ تار” کے درمیان یہ تضاد نظم کو گہرائی دیتا ہے۔
*٦۔ نظم کا "مرکز” اور "کنارے”😘
ساختیاتی تنقید میں متن کے "مرکز” اور "کناروں” کا تجزیہ کیا جاتا ہے۔ اس نظم میں *”سفید پانی”* مرکزی علامت ہے جبکہ دیگر عناصر جیسے "گاؤں”، "جہاز”، یا "دھند” کناروں پر ہیں۔ یہ کنارے مرکز کو معنی دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر، "جہاز” کا ذکر صرف آخر میں ہوتا ہے جو مرکزی علامت (پانی) کو ایک نئے زاویے سے دیکھنے پر مجبور کرتا ہے۔
*۷۔ نتیجہ: ساخت ہی معنی ہے۔*
ساختیاتی تجزیے کے مطابق یہ نظم اپنے *عناصر کے باہمی رشتوں* سے معنی پیدا کرتی ہے۔ ہر علامت، لفظ، یا تقابل اپنی ذات میں نہیں بلکہ دوسرے عناصر کے ساتھ تعلق میں معنی رکھتا ہے۔ مثال کے طور پر "سفید پانی” کا مفہوم "سیاہ تاروں” کے بغیر ادھورا ہے۔ اسی طرح، "گاؤں کی ندی” کا پل "سنگترے کے قاش” کے بغیر اپنا تاثر کھو دیتا ہے۔ اس طرح نظم ایک *منظم ساخت* ہے جس کا ہر حصہ دوسرے حصے کی موجودگی سے زندہ ہے۔
یہ نظم انسانی وجود کے اساسی سوالات کو کسی جواب تک پہنچانے کی بجائے انہیں ایک *ساختیاتی کائنات* میں پیش کرتی ہے جہاں سوال اور جواب دونوں اپنے تعلقات کے دائرے میں قید ہیں۔
آصف علی آصف
Facebook
Twitter
WhatsApp

ادب سے متعلق نئے مضامین