اختصار کنجی ہے موئثر ابلاغ کی۔۔۔۔۔
تحریر شجاع الزماں خان شاد
اس رہنما اصول کو مدّنظر رکھتے ہوۓ پروفیسر رضیہ سبحان قریشی صاحبہ کے چھٹے شعری مجموعے کی تقریبِ رونمائی بمورخہ 4 مئی 2024 کے حوالے سے یہ سطور قارئینِ چہرہ کتاب کی خدمت میں پیش کی جا رہی ہیں۔ یہ میڈیم سرعت کے ساتھ رواج پانے کو ہے۔ اور مستقبل میں ابلاغ کا اہم مرکز بننے کی بھر پور استطاعت رکھتا ہے۔
(The main idea behind is to highlight essence of Razia Subhan’s 6th creation ‘ حاصل لا حاصل ‘ for brief & quick reference.)
سرد آگ، خاموش دستک، سیپیاں محبت کی، مکاں لا مکاں،آگہی کی منزل پر اور اب حاصل لا حاصل۔۔۔
اسے میں زیست کا حاصل کہوں کہ لا حاصل
اسے تو ڈھونڈ لیا اور گنوا دیا خود کو۔۔۔۔۔
آپ ایک ماہرِ تعلیم، خطّاط، مصورہ اور باشعور، باوقار، حسّاس دل رکھنے والی نامور شاعرہ ہیں۔ رضیہ سبحان کو اپنے گردوپیش کے ماحول کا پورا ادراک ہے۔ ان کی طبیعت میں زندگی کے اسرار جاننے کی امنگ بدرجہ اتم موجود ہے۔ رضیہ سبحان کے ہاں الفاظ کا دلکش انداز میں برتاؤ کسی ماہر فنکار جیسا ہے۔ کب سخنور مصور کی طرح رنگوں کی آمیزش سے شاہکار بنا بیٹھے۔۔۔۔۔
پوچھتے ہو جو حال اس دل کا
تم نے خالی مکان دیکھے ہیں
*
پتھر کی طرح جس نے مجھے ماری ہے ٹھوکر
دعوی تھا اسے ہیرے کی پہچان بہت ہے
*
رقص کرتے ہوۓ جب حد سے گزرنا چاہا
تب ہمیں حلقۂ زنجیر کا احساس ہوا
*
وہ اپنی بے تحاشہ خامشی سے
مچاتا ہے بلا کا شور مجھ میں
حد درجہ اختصار کے تناظر میں خود رضیہ سبحان اپنے طویل شعری سفر کا احاطہ کرتے ہوۓ لکھتی ہیں :
” اپنی پہلی تخلیق ‘سرد آگ’ میں اس زمانے کی بے اعتناعی اور سردمہری کا جابجا شور سنائی دیتا تھا۔۔۔ شاید میں اس وقت اسی ہنر سے واقف تھی۔
*
جن کو دنیا میں کوئی کام نہیں
وہ زمانے سے گلہ کرتے ہیں
کچھ عرصے بعد ‘ خاموش دستک ‘ کی صدا گونجی کہ اب جینے کا شعور آ چلا تھا مگر زمانے سے شکایت بدستور تھی۔
پھر اچانک ‘ سیپیاں محبت کی ‘ تیسری کتاب کی شکل میں ملیں۔ یہ آسودگی کا دور تھا کچھ حاصل ہونے کا احساس تھا اور فکر کی منزلیں عمر کے ساتھ طے ہونے لگیں۔
چوتھی کتاب ‘ مکاں لا مکاں ‘ نئے امکانات لیے نمودار ہوئی۔ مکاں لا مکاں کی حیرتوں سے نکل کر آگہی کا احساس ہوا اور فہم و ادرک کی ہلکی سی کرن میری زخمی روح میں در آئی محسوس ہوئی۔
اور پانچویں کتاب مجھے ‘ آگہی کی منزل ‘ پر لے آئی۔ میں رُکی اپنا جائزہ لیا، میں نے کیاکھویا اور کیا پایا ہے۔
پھر تجربات کی بھٹی میں سلگ کر
‘ حاصل لا حاصل ‘ کو چھٹی کتاب کا درجہ دے دیا۔ "
محترمہ نسرین سید ( کینیڈا) نے رضیہ سبحان کو کومل جذبوں کی شاعرہ قرار دیا۔ نسرین سید از خود اس عہد کی معتبر شاعرہ ہیں۔ وہ متانت، اعتماد اور فکر کی تازہ کاری کے ساتھ مصرعوں کو مرصع کرنے کے ُہنر میں طاق ہیں۔ لفظ کو حسنِ معانی کے ساتھ برتنے کا سلیقہ ان کا طرّۂ امتیاز ہے، دلکش اور متائثر کن نسائی لہجے کی شاعری ان کا خاصہ ہے۔۔۔
*
ہیں گُہر قرطاس پر، یہ خامہ فرسائی نہیں
شعر ہے رمز و کنایہ، حرف آرائی نہیں
تشنگی تشنہ سماعت کی مٹے کس طور سے
جب تمھاری گفتگو کا جام صہبائی نہیں
نسرین سید
آپ کہتی ہیں رضیہ سبحان سنجیدگی سے سخن کی آبیاری میں مصروف ہیں۔ وہ اپنے نرم و ملائم تخیلات کو آبگینوں جیسے الفاظ میں پرو کر اس وحشی صنفِ غزل کو ایسے رام کر لیتی ہیں کہ وہ سج سنور کر عروسِ سخن کہلانے کی حقدار ٹہرتی ہے۔ ان کی غزل میں تہذیب بھی ہے اور جمالیات بھی۔ دلنوازی بھی ہےاور اثر آفرینی بھی۔ رضیہ سراپا محبت ہیں اور محبت کی زبان بولتی ہیں۔
کسی بھی نام سے مجھ کو پکارو
محبت کی زباں تو عالمی ہے
*
پہچانتے ہیں لوگ محبت کے نام سے
کیا ہے جو گھر پہ نام کی تختی نہیں لگی
طویل شعری سفر کی مسافت کے بعد رضیہ سبحان زبان و بیان پر پختہ دسترس حاصل کر چکی ہیں۔ قاری پر یہ بات کلی طور پر عیاں ہے کہ ان کی شاعری لفظوں کی جادوگری اور مرصع نگاری تک محدود نہیں بلکہ ایک مسلسل شعوری کاوش ہے۔ انھوں نے مصورہ ہوتے ہوۓ احساسات کو بھی رعنائیوں کے ساتھ اظہار ذات کا ذریعہ بنا دیا ہے۔ اس کے پس منظر میں ان کی پروقار، شاندار باغ و بہار شخصیت نے بھی عمل انگیزی کا کام کیا ہے۔۔ان کی طبیعت کی ہمہ رنگی ملاحظہ کیجیئے۔
*
میں ہوں سکوتِ دہر میں آشفتہ موجِ شام
ہو کر رہوں اسیر یہ اس کا خیالِ خام
ان کے فنی در وبست کی مرصع نگاری، خوبصورت بندشوں کا استعمال، نفاست اور رعنائیِ کلام کے جلوے کلام میں جا بجا موجود ہیں۔
*
عجیب طرح کی بندش ہے یہ محبت بھی
نہ اُس نے قید میں رکّھا نہ ہم ہوۓ آزاد
کچھ منتخبہ اشعار دیکھیے۔۔۔
*
میں اگر پھول ہوں دامن پہ سجاتے جانا
اور جو پتھر ہوں تو رستے سے ہٹاتے جانا
جس طرف جاؤگےہر سمت نظارے ہوں گے
تم مرا عکس ہر اک شے سے مٹاتے جانا
*
یہ کون آنکھ کی پتلی میں آ کے ٹہر گیا
کہ جس کو دیکھا نہیں وہ دکھائی دینے لگا
*
نہ آگ سرد کبھی ہو گی جزبۂ دل کی
مرے وجود میں گرمی ترے خیال کی ہے
*
دمِ رخصت عجیب منظر تھا
جھیل سی آنکھ میں سمندر تھا
*
یہ فیصلہ تو اراکینِ بزمِ عشق کریں
مرے جمال میں اس کا کمال کتنا ہے
*
انا کے بت کو ان ہاتھوں سے توڑ آئی ہوں
میں اپنی میں کو بہت دور چھوڑ آئی ہوں
نہیں ملال جو کوئی سمجھ نہ پایا مجھے
شناخت اپنی ترے در پہ چھوڑ آئی ہوں
*
جب کسی اور کو وہاں دیکھا
میں تیرے خواب سے نکل آئی
*
نکل آئی ہوں سب کی دسترس سے
نظر کے سامنے ہوں، گمشدہ ہوں
شجاع الزماں خان شاد کراچی