ادُھورے خواب بچوں کو وصیت کر کے جاوں گی
بِکھر کر کیسے جینا ہے نصیحت کر کے جاوں گی
مٹادوں گی میں نفر ت لفظ کو ساری کتابوں سے
مُحبت میں مگر تھوڑی سہولت کر کے جاوں گی
نکالوں گی تُجھے دل سے مگرپھر خُوب رو رو کے
قیامت سے بھی پہلے اک قیامت کر کے جاوں گی
میں دل کے شہر پہ تختی لگا کے نام کی تیرے
سبھی جذبات بھی تُجھ کو ودیعت کر کے جاوں گی
مرے بچے نہ ترسیں گے زمانے کی کسی شے کو
کہ میں خود زیست میں اتنی مشقت کر کے جاوں گی
اٹھائے غم اکیلی اب چلی جاوں گی میں لیکن
تری رہ میں کھڑی کوئی اذیت کر کے جاوں گی
وفا کی جوروایت ہے چلی تھی نام سے میرے
مگر اب بے رُخی تیری بدولت کر کے جاوں گی
زریں منور