ادھر وہ ہاتھوں کے پتھر بدلتے رہتے ہیں
ادھر بھی اہل جنوں سر بدلتے رہتے ہیں
بدلتے رہتے ہیں پوشاک دشمن جانی
مگر جو دوست ہیں پیکر بدلتے رہتے ہیں
ہم ایک بار جو بدلے تو آپ روٹھ گئے
مگر جناب تو اکثر بدلتے رہتے ہیں
یہ دبدبہ یہ حکومت یہ نشۂ دولت
کرایہ دار ہیں سب گھر بدلتے رہتے ہیں
بیکل اتساہی