ادھورے پن میں مجھے مبتلا کیا ہی نہیں
کہ عشق نے تو کوئی مسئلہ کیا ہی نہیں
پرائے جسم کے انکار کی نمی سے اٹھا
وہ ہجر جس نے کبھی رابطہ کیا ہی نہیں
حروف اوندھے پڑے ہیں زباں میں لکنت ہے
کہ اختتام ابھی ابتدا کیا ہی نہیں
یہ بات چیت کی عادت مکیں کو ہوتی ہے
مکاں نے ورنہ گلی سے گلہ کیا ہی نہیں
بندھے بندھائے پڑے ہیں بدن کے پنجرے میں
اجل کی خیر کہ جس نے رہا کیا ہی نہیں
ارشاد نیازی