اردو ادب (مختصر جائزہ)
یہ مضمون پہلی بار 1954 میں شائع ہوا تھا اس لئے یہ تاریخی جائزہ بھی 1954 تک محدود ہے۔
جب منگولوں کے غول در غول جنوبی چین سے کاریتھین پہاڑوں تک ہر تہذیب کو بہا لے گئے تو دنیا کی فرہنگوں میں این نئے لفظ کا اضافہ ہوا۔ تاتاری لفظ اردو بہ معنی شاہی خیمہ گاہ، جو ترکی میں اوردو (Ordu) اور فرانسیسی اور انگریزی میں حہردع کی شکل میں سامنے آیا۔ چند عشروں کے بعد جب یہ یلغار ختم ہوئی تو منگول پہلے چین اور بعد میں روس سے نکال دیے گئے۔ لیکن اسلامی ملکوں میں وہ اسلامی ثقافت کے ڈھانچے میں جذب ہو گئے۔ ہندوستان میں ان منگولوں کی اولاد، عظیم مغل بادشاہوں نے ایک شاندار سلطنت قائم کی، وہ دنیا کی بہترین تعمیرات کے خالق تھے۔ انہوں نے مصوری کے ایک نئے انداز تصویرچہ مصوری (Miniature) کی سرپرستی کی اور عمارتوں اور باغات کا نہایت دلکش طرز پیدا کیا۔ ان کے شاہی خیمہ گاہوں کو تاتاری نام اردو یا اردوئے معلٰی ہی کہا جاتا رہا اور یہ نام ہلکے ہلکے لشکر کی زبان سے منسلک ہو گیا۔
لیکن اصل میں اردو زبان اس نام سے زیادہ پرانی ہے جس سے وہ جانی جاتی ہے۔ اردو زبان کی اصلیت کی تاریخ اس لیے دلچسپ ہے کہ اس میں تحقیق کی بہت گنجائش ہے۔ اس میں علمی شک و شبہ کا امکان ہے۔ آریاؤں کی اصل جنم بھومی اور موئن جوڈرو کو انجانی رسم الخط کی پراسرار حیثیت کی طرح، اردو زبان کا اصل وطن بھی شگفتہ اختلاف رائے کا موضوع بنا رہا ہے۔ لیکن اصلیت جو بھی ہو، اس زبان کی حقیقت برصغیر کے مسلمانوں کے اس عزم میں پوشیدہ ہے کہ ان کی زبان مقامی روزمرہ کی آئینہ دار ہو اور ان کی فارسی ثقافت اور عربی ورثے کی نمائندگی کرے۔ یہ اجتماعی عزم ان علاقوں میں زیادہ سرگرم تھا، جہاں وہ اکثریت میں تھے۔ اور اب پاکستان میں شامل ہیں۔ ان علاقوں میں اس زبان نے جلدی ترقی کی اور اس کا مجموعہ الفاظ وسیع تر ہو گیا۔ برصغیر کے دوسرے حصوں میں، دکن اور گجرات میں، دہلی اور لکھنؤ میں، اردو کو رو بہ زوال درباروں کی سرپرستی میں ترقی کا موقع ملا اور ان شاعروں کے تصورات کا ذریعہ اظہار بنی جو دربار اور روایت سے منسلک تھے۔ یہ عنصر شروع سے ہی اردو زبان کے لئے ایک رکاوٹ و خسارہ تھی۔ وہ صوبے جو آج پاکستان میں شامل ہیں۔ وہاں اردو زبان کو درباروں کی سرپرستی حاصل نہ تھی۔ اسی لیے یہ عام لوگوں کے علمی خیالات کے اظہار کا ذریعہ بنی۔ زیادہ سمجھدار لوگوں کی یہی خواہش تھی کہ وہ اپنی مشترک روایت کو محفوظ کریں اور دوسروں سے ایسی زبان میں رشتہ قائم کریں جو محض مقامی بولی نہ ہو بلکہ جیسے برصغیر میں رہنے والے اور لوگ بھی سمجھ سکیں اور ایک دوسرے کے شریک ہو سکیں۔
پانچ دریاؤں کی زمین "پنجاب” سے ابتداء کیجیئے۔ جو مسلمان فاتحؤں کا پہلا گڑھ تھا اور ان کی علمی سرگرمی کا مرکز، پروفیسر محمود شیروانی کا دعوٰی ہے کہ شروع کی اردو اورپنجابی کی صرف و نحو میں اتنی باتیں مشترک ہیں کہ ان دونوں کی اصلین ایک ہی ہونا معقول معلوم ہوتا ہے۔ اردو کی سب سے پہلی ادبی باقیات میں مسعود سلمان کا وہ ہندوستانی کلام ہے جو موجود نہیں ہے۔ وہ برصغیر کا سب سے پہلا فارسی زبان کا شاعر تھا۔ جس کی نظموں میں لاہور کی یاد بھری ہوئی ہے۔ ان کو شاید پاکستان کے سب سے پہلے ملی نغمے کہنا چاہیے۔ دو صدی بعد امیر خسرو آئے۔ شاعر، بذلہ سنج، موسیقار، انہوں نے نفیس فارسی اشعار کہے اور اردو شاعری میں تجربے کیے۔ امیر خسرو دہلی سے آئے تھے لیکن انہوں نے اپنی زندگی کے چند نتیجہ خیز سال ان علاقوں میں گزارے جو آجکل پاکستان میں شامل ہیں۔
نیم فارسی، نیم اردو، اشعار جو روایت کے مطابق امیر خسرو کا کلام ہیں۔ نچلے درجے کی فرانسیسی کی طرح کوئی ادبی عجوبہ نہیں ہیں۔ ان کی شاعری میں کمال کے حسن کی خوش الحان ہم آہنگی ہے۔ ایک نغماتی رس ہے جس کا ترجمہ کرنا بے حد مشکل ہے۔ مثلََا
یکایک از دل دو چشم جادو، بصد فتربم، ببرد تسکین
کسے پڑی ہے جو جا سنادے، پیارے پی کو ہماری بتیاں
مقامی بولیوں میں اردو سے سب سے زیادہ قریب ملتانی ہے۔ جنوبی پنجاب کی بولی جو پنجابی اور سندھی کے درمیان ایک رابطہ ہے۔ ملتان کی اس بولی میں فید کی کافیاں آدھی اردو ہیں، اس صوفی بزرگ نے جان بوجھ کر کافیاں ملی جلی فارسی اور اردو میں لکھی ہیں۔ روایت یہی ہے کہ بہت سے فقرے ان کی ایجاد ہیں جو ہمیں روزمرہ بول چال کی اردو کی ابتداء سمجھنے چاہیئیں۔
پنجاب میں اردو شاعری کی روایت صدیوں قائم رہی۔ شاعروں میں شیخ عثمان، شیخ جنید، ناصر علی سرہندی اور وارث شاہ جو پنجابی زبان کے سب سے زیادہ مشہور اور مقبول شاعر ہیں، شامل تھے۔
کم از کم ایک موقع پر امیر خسرو ایک مسلمان جرنیل کے ہمراہ ایک فوجی مہم پر دکن بھی گئے۔ جب دکن میں نئی مسلم سلطنتیں ابھریں تو ونہوں نے اردو کو اپنا لیا۔ اردو نثر کی سب سے پہلی کتاب دکن کے صوفی بزرگ خواجہ بندہ نواز نے لکھی۔ خواجہ موصوف انگریزی زبان کے مشہور شاعر چاسر کے ہم عصر تھے۔ اردو کی سب سے پہلی نظم "ہفت اسرار” اسے زمانے میں تحریر ہوئی، اردو کے اولین ممتاز شاعر، نصرتی نے شعر کو مثنوی کے لئے مکمل طور سے استعمال کیا حالانکہ اس شاعر کی زبان، جو پیجا پور کے دربار سے متعلق تھا، جدید اردو سے مختلف اور دقیانوسی ہے۔ ادبی اہمیت کی ایک اور شخصیتسلطان محمد قلی قطب شاہ، گولکنڈہ کے بادشاہ، حیدرآباد (دکن) کے بانی تھے۔ فن تعمیر میں بھی وہ ایک نئے انداز کے پیش رو تھے۔ رونسرڈ اور شیکسپیئر کے ہم عصر، خود باکمال نغماتی شعر کہتے تھے۔ ان کا واردات قلبی کا مشاہدہ اور فطرت سے قرب اردو شاعری میں ثانی نہیں رکھتا۔ انہوں نے اردو کا سب سے پہلا دیوان مرتب کیا۔
سولھویں اور سترہویں صدیوں میں بیجا پور اور گولکنڈہ کے دربار اردو ادب کے مرکز تھے۔ وجہی اور غواصی نے اردو مثنوی کو فارسی روایت کے قریب پہنچایا۔ وجہی کا تمثیلی قصہ، سب رس، جو مشہور قصے Romance Of The Rose سے بے حد مشابہ ہے، اردو زبان کی پہلی نثری کہانی ہے۔
دکن کو اردو سکول کو ولی نے عروج پر پہنچایا۔ مغل بادشاہ اورنگزیب کے دکن فتح کرنے کے بعد ولی کو مغل کیمپ کی پختہ اور کٹر اردو بولی سے آشنائی ہوئی۔ اس نے دکن کے محاورے اور شمال کی فارسی سے متاثر شستہ اردو کی آمیزش کی، اس طرح اردو شاعری کا ایک نیا سکول مغلیہ دارالخلافہ دہلی میں پیدا ہوا، جو زیادہ شاداب اور جدید تھا۔ ولی کے ساتھ علاقائی اردو ادب ختم ہو گیا اور وہ روایتی انداز شروع ہو گیا جو بعد میں ایک صدی سی زیادہ تک دہلی اور لکھنؤ میں پھلتا پھولتا رہا۔ ولی کے دیوان کا نمونہ حاضر ہے۔
میری طرف ساغر بکف، آتا ہے وہ مست صبا
اے دل، تکلف برطرف، مستانہ ہو، مستانہ ہو
مج کوں خمار ہجر سوں پیدا ہوا ہے درد سر
اے گردش چشم پری، پیمانہ ہو، پیمانہ ہو
اردو شاعری نے دہلی میں عہدِ مغلیہ کے آخری دور میں قدم رکھا۔ اس عہد کی خوبصورت عکاسی ڈاکٹر سپیئر نے اپنی کتاب "مغلوں کی شفق” میں کی ہے۔ مغلیہ عہد کے خاتمے سے پہلے ہی ایک کے بعد ایک مختلف راتح حملہ کرتے رہے اور شاہی دارالخلافہ دہلی کو اجاڑتے رہے۔ نادر شاہ ایران سے آیا اور احمد شاہ ابدالی افغانستان سے۔ لیکن ان سے بد تر مرہٹوں اور جاٹوں کے غول تھے جو مغلوں کے زوال سے پیدا ہوئی لاقانونیت کی صورت میں بالکل جنگلی ہو گئے تھے۔ اس کے باوجود دہلی ہی تھی جہاں مسلم تہذیب کو اس افراتفری کے دور میں قائم رکھا گیا اور دہلی ہی میں اردو ادب کے بہترین نمونوں کی تصنیف اور مطالعہ جاری رہا۔
ان حالات میں شاعر میر نے نہایت دلگداز اور داخلی احساسات سے پُر غزلیں۔ اس کے ہم عصر سودا نے اپنے زمانے اور لوگوں پر طنز اور ہجو کا طریقہ اختیار کیا۔ میر کی غزلوں میں اردو کی شاعرانہ بندش میں نرمی آئی اور اس نے اردو شاعری کو احساس کی گہرائی کا تحفہ عطا کیا۔ مثلََا
رہی نہ گفتہ مرے دل میں داستاں مری
نہ اس دیار میں سمجھا کوئی زباں میری
بہ رنگ صورت جرس مجھ سے دور ہوں، تنہا
خبر نہیں ہے مجھے، آہ کارواں، میری
اس سے دور رہا اصل مدعا جو تھا
گئی یہ عمر عزیز، آہ رائیگاں میری
تیرے فراق میں جیسے خیال مفلس کا
گئی ہے فکر پریشاں کہاں کہاں میری
میر اور سودا کے ایک ہم عصر صوفی بزرگ درد تھے۔ انہوں نے چاروں طرف پھیلی ہوئی افراتفری سے منہ پھیرا اور داخلی تحلیل اور مسرت بخش کشف کی راہ اختیار کی۔ مثلََا
دل کو لے جاتی ہیں معشوقوں کی خوش اسلوبیاں
ورنہ ہیں معلوم ہم کو سب انہوں کی خوبیاں
دردِ دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ اطاعت کے لیے کچھ کم نہ تھے کر و بیاں
آپ تو تھیں ہی، پر اس کا بھی کیا خانہ خراب
درد اپنے ساتھ آنکھیں دل کو بھی لے ڈوبیاں
اگلی نسل میں "مصحفی” نے غزل کو نکھارا اور کبھی کبھی کامیابی سے عشق درویش اور شائستگی کو ملا کر باندھا۔
اسی دوران دہلی میں سیاسی اور معاشرتی افراتفری اپنی انتہا کو پہنچ گئی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ بہت سے شاعر جن میں میر، سودا، مصحفی شامل تھے لکھنؤ ہجرت کر گئے۔ وہاں اودھ کے نواب وزیر نے اپنی سرپرستی میں ایک چمکدار، بگڑا ہوا، پست حال دربار لگا رکھا تھا۔ دہلی کے ایک اور شاعر انشاء بھی بعد میں اس حلقے میں شامل ہو گئے اور ان کی نسبتََا زیادہ سنجیدہ مصحفی سے خوب نوک جھوک ہوتی۔ لکھنؤ کے دربار میں شاعری کے ایک نئے سکول نے جنم لیا، جس میں دہلی سکول کی سادگی کی جگہ موضوع اور بیان کے زنانہ پن نے لے لی۔ ناسخ نے شاعرانہ طرز کلام کی تطہیر کے لئے ایک تحریک چلائی لیکن اصلیت میں اس کا مطلب محض لفاظی کی معیار بندی تھا۔
لکھنؤ کے سکول میں چند تلافی کرنے والی شخصیات بھی سامنے آئیں۔ ان کا قابل ترین نمائدہ آتش تھا۔ اس میں یہ الہیت تھی کہ وہ کبھی کبھی نہایت پست سطح سے ابھر کر غیر معمولی بلندی تک پہنچ جائے۔ بعض دفعہ اس کے کلام میں پر خلوص تغزل نظر آتا تھا۔ جو اس زمانے کے لکھنؤ کے شاعروں میں نایاب تھا۔ اس کی ایسی ہی ایک غزل ہے۔
شبِ وصل تھی، چاندنی کا سماں تھا
بغل میں صنم تھا، خدا مہرباں تھا
وہ شب تھی کہ تھی روشنی جس میں دن کی
زمیں پر سے ایک نور تا آسماں تھا
نکالے تھے دو چاند اس نے مقابل
وہ شب صبح جنت کا جس پر گماں تھا
عروسی کی شب کی حلاوت تھی حاصل
فرح ناک تھی روح، دل شادماں تھا
بیاں خواب کی طرح جو کر رہا ہے
یہ قصہ ہے جب کا کہ آتش جواں تھا
اس کے ساتھ ساتھ ایک غیر صوفیانہ، تقلیدی، مذہبی تحریک کی لہر لکھنؤ کے شاعروں میں آئی جن میں سب سے زیادہ ممتاز انیس اور دبیر تھے۔ انہوں نے شہادت امام حسینؓ کو اپنا موضوع بنایا۔
پھر یہ ہوا کہ دہلی میں جیسے ایک سہما ہوا امن قائم ہوا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کا اثر و رسوخ بڑھ گیا۔ مغل بادچاہوں کی فرماں روائی لال قلعہ کی چار دیواری تک محدود ہو گئی۔ لیکن اس کا مرتے دم تک راگ اعلٰی و ارفع تھا۔ عشق انسانی کا موضوع عجیب و غریب خلوص اور پاکیزگی سے مومن نے اپنے کلام میں پیش کیا۔ قصیدہ، جو اردو شاعری کی لفظی سج دھج کا بہترین آئینہ دار ہے۔ ذوق کے ہاتھوں میں، سودا کی روایت کو جاری رکھتے ہوئے ایک مخصوص بناوٹی بلندی تک پہنچ گیا۔
لیکن اس زمانے کا اعلٰی ترین شاعر اسد اللہ خان غالب ہے جس نے بعد میں اردو ادب کی عظیم ترین شخصیت کا مقام حاصل کر لیا۔ ابتداء میں تو وہ فارسی شاعر بیدل سے متاثر ہوا جو دنیاوی دلچسپیوں کا مخالف تھا اور جس میں احساس اور غور و فکر کی اس قسم کی آمیزش ہے جو مشہور شاعر "ڈن” کی یاد دلاتی ہے۔ غالب کے لئے یہ طریقہ کار محض ابتدائی منزل تھی جس میں اس نے اپنے خیالات کو مفصل استعاروں میں بیان کیا ہے۔ غالب کے اشعار میں کسی فلسفے کا ہم آہنگ نقش ابھرتا نظر نہیں آتا لیکن اس نے عشقِ الہٰی اور عشقَ مجازی کے نئے انداز کی ترجمانی کی۔ احمد علی کے الفاظ میں "اس نے مختلف النوع خیالات کو ایک خاص شدت سے ایک دوسرے میں پیوست کیا۔ برطانوی تصوری شعراء کی طرح اس نے احساس اور فکر کا ایک امتزاج پیہدا کیا اور اس طرح ایک نئی موسیقی، نیا امتزاج ترتیب دیا۔ جذبے کو فکر میں اور فکر کو جذبے میں سمو دیا۔ اس نے چابک دستی اور تجزیے سے خیال کا اظہار اس انداز میں کیا جو تخیل سے بھی سقر ہے۔ نمونے ملاحظہ ہوں۔
"رات دن گردش میں سات آسماں
ہو رہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیا
عمر بھر دیکھا کیے مرنے کی راہ
مر گئے، پر دیکھئے دکھلائیں کیا
پوچھتے ہیں وہ کہ غالب کون ہے
کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا
غالب کے ساتھ ایک عہد کا اختتام ہوا۔ اس نے روایتی شعر کو لغو نظر آتا دکھایا۔ ایک نیا علمی انداز پیدا کیا، جس نے ان شاعروں کو متاثر کیا جو اس کے بعد آئے۔ اس نے ایک دفعہ کہا تھا کہ غزل کی تنگ گلی اس کی شاعری کی آتش کے لئے نا کافی ہے۔ اس نے اندازِ بیاں اور ٹیکنیک میں ایک انقلاب پیدا کر دیا۔ اس کے بعد وہ سانحہ ہوا جس نے اردو شاعری کا ماحصل مزاج اور کیفیت یکسر بدل دی۔
یہ 1857 کا ہنگامہ تھا۔ پہلی بد نظم، بے اصول مسلح آزادی کی بغاوت جس نے برصغیر کو ہلا کر رکھ دیا۔ ہندوستان کے مسلمانوں کے لئے قیامت کی گھڑی لائی اور ان کے سامنے صرف دو ہی راستے رہ گئے۔ پہلا سست رفتار بردباری، دوسرا فاتحوں کی تہذیب کو تسلیم کرنا، تا کہ وہ کم از کم ایک غیر واضح جماعت کی طرح زندگی بسر کر سکیں۔ دہلی جل کر راکھ ہو گئی۔ آخری سایہ مغل بادشاہ، بہادر شاہ ظفر نے جو خود بھی شاعر تھا، برما میں جلا وطنی کے زمانے میں اپنے آباء و اجداد کے دارالخلافے پر، جو کبھی شہروں کی دلہن کہلاتا تھا یہ نوحہ لکھا۔
نہیں حالِ دہلی سنانے کے قابل
یہ قصہ ہے رونے رولانے کے قابل
اجاڑے لٹیروں نے وہ قصر اس کے
جو دیکھنے اور دکھانے کے قابل
وہ گھر ہے نہ در ہے، رہا ایک ظفر ہے
فقط حالِ دہلی سنانے کے قابل
نہ دبایا زیرِ زمیں انہیں، نہ دیا کسی نے کفن نہیں
نہ ہوا نصیب وطن انہیں، نہ کہیں نشانِ مزار ہے
اس کے بعد ملکہ وکٹوریہ کا عہد شروع ہوا اور اس زمانے کی تہذیبی قدریں اردو ادب میں جگہ لینے لگیں۔ ایک تلخ کشمکش محض زندہ رہنے کے لئے شروع ہوئی۔ اپنے آپ کو ان مخصوص حالات کا تقاضا پورا کرنے کے لئے ڈھالنا، نئی ثقافت میں جذب ہوا، اپنے رویے میں تبدیلی لانا، تنقید کرنا اور تسلیم کرنا، اس کشمکش میں ذریعہ اظہار ضرورتََا نثر تھی لیکن اس نے شاعری کے دھارے کو بھی بدل دیا۔
زندہ رہنے اور دوبارہ ابھرنے کی اس جدو جہد کے رہبر سر سید احمد خان تھے، انہوں نے اسی کام کے لئے ننثر کا سہارا لیا اور ایک صاف ستھرا، رواں اور واقعاتی اندازِ تحریر اختیار کیا۔ یہ ایک نیا راستہ تھا کیونکہ اس وقت تک اردو نثر سست رفتار بناوٹی طرز میں لکھی جاتی تھی۔ مقفٰی، پر تکلف، تمثیلی، استعارہ اور تشبیہ پر، قافیہ اور توازن کی پابند، اردو نثر میں جادو، پریوں اور دیو کی کہانیاں تھیں یا کبھی کبھی تمثیلی صوفیانہ موضوع تھے۔ اس کو غالب کے روزمرہ لکھے خطوط نے آزاد کیا۔ اور 1800ء میں ڈاکٹر گلکرسٹ نے فورٹ ولیم کالج، کلکتے میں سلیس اردو لکھنے کی تحریک شروع کی۔ اس کی بہترین مثال میرا من دہلوی کی باغ و بہار ہے جو کہانیوں کا مجموعہ ہے۔ اردو نثر پر بھروسہ کرنے کے لئے سر سید کو اول تو اپنی شخصیت کا سہارا لینا پڑا اور ان کی اس خواہش کا کہ اردو کے مجموعہ الفاظ میں اضافہ ہونے کے ساتھ ایک ایسا طرز تحریر اختیار کیا جائے جس کے ذریعے مغربی علمی فکر اور سائنس اور اردو میں منتقل کیا جا سکے۔ لہٰذا انہوں نے آثارِ قدیمہ، فنِ تعمیر، دینیات، اخلاقیات، معقولی فلسفہ، تعلیم کا تصور اور مختلف سیاسی موضوعات پت قلم پر اٹھایا، انہوں نے ہی اردو اخبار نویسی کی بنیاد ڈالی۔
سر سید کی نثر نے امکان کا راستہ کھول دیا۔ اردو زبان میں تاریخی اور علمی تحقیقی اور ادبی تنقید اپنے پاؤں پر کھڑی ہو گئی۔ سر سید کے رفیق کار، شبلی نے اپنے ہمہ گیر، معاشرتی علوم کی فضیلت کی بنیاد پر تاریخ اسلام کی تعمیر نع کی اور نئے انداز سے اسے جانچا، فارسی اور اردو میں ادبی تنقید کی تاریخ میں شبلی نے بڑا اہم کام کیا۔ سر سید احمد خان کے ایک اور ساتھی، نذیر احمد نے اخلاقی ناول لکھے اور جدید ناول نگاری کی بنیاد ڈالی۔ ان کے ایک اور دوست، منشی ذکاء اللہ نے متفرق موضوعات پر لکھا۔ لیکن ان کے رفقاء میں سب سے زیادہ ممتاز صوفی منش شاعر حالی تھے۔ وہ نقاد اور سوانح نگار بھی تھے۔ حالی نے اپنی نثر سے نہ سرف سر سید کی سادگی، سلاست اور خلوص کو زندہ رکھا بلکہ اسے اور نرم بنا دیا۔ حالی کے طرز کی ضد ایک اور عظیم ادیب میں نظر آتی ہے۔ گو وہ سر سید کے گروہ میں شامل نہیں تھے۔ محمد حسین آزاد مرصع اور نفیس طرز کے مالک، قصے لکھنے کا ان کو ملکہ تھا۔ اصلہ ہو یا خیالی، ان خوبیوں سے اس بات کی تلافی ہو گئی کہ انہوں نے تاریخ ادب کا حلیہ بگاڑ دیا۔
محمد اقبال، شاعر، فلسفی، دانشور، سیاسی رہبر تھے۔ انہوں نے اردو شاعری میں ایک انقلاب برپا کر دیا۔ انہوں نے روایتی کلاسیکی انداز سے کنارہ کشی کر کے خیال اور عمل دونوں میں، فن و ادب کو ایک مصلحانہ تجربہ کے طور سے روشناس کرایا۔ جو انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کی تشکیل کر سکے۔ شاعری میں داخلی احساس کے عنصر کو انہوں نے خارج کیا اور صدیوں پرانا فن برائے فن کا تصور جو ان کے ہم عصر فرانس میں دوبارہ زندہ کر رہے تھے۔ انہوں نے ختم کر دیا۔ اپنے فلسفہ زندگی کے بنیادی حصے کے طور سے، وہ اپنے اس تضاد کو پیچھے چھوڑ گئے جس کے مطابق طرزِ بیاں اس زندگی سے جڑا ہوا نہیں ہے جو اصل میں موجود ہے۔ بلکہ اس زندگی سے جو ہونی چاہیے۔ ان کے خیال کا بنیادی نکتہ انسان کے ہاتھوں اپنے ماحول کو زیر کرنا ہے۔ اقبال نے فن کا تصور ان الفاظ میں بیان کیا ہے۔ "ظاہر کو باطن کی تشکیل کی اجازت دینا اس چیز کی تلاش جس کو علمی اصطلاح میں فطرت سے مطابقت کہا جا سکتا ہے۔ اس بات کا اعتراف ہے کہ اس کی حاکمیت انسان کے نفس پر موجود ہے۔ طاقت اس کے محرکات اور ترغیبات کی مزاحمت سے پیدا ہوتی ہے۔ نہ کہ اپنے آپ کو ان کی طاقت کے سامنے کھلا چھوڑنے سے، اس چیز کی مزاحمت جو ہے اس چیز کی تخلیق کی خاطر جو ہونی چاہیے، اصل صحت اور زندگی ہے۔ اس کے علاوہ محض ابتری اور موت ہے۔ خدا اور انسان دونوں دائمی تخیلق سے زندہ رہتے ہیں۔”
یہ باتیں ان لوگوں نے کبھی نہیں سنی تھیں جو تلخ شیریں لیکن یکسانیت کے اسلوب والی اردو غزل کے عادی تھے جو زندگی کو وہ جیسی بھی ہو تسلیم کرتے تھے۔ اور جن کے جمالیاتی احساسات تازگی سے محروم ہو گئے تھے۔ اپنی ہیئت میں اردو غزل کا انحصار قافیے کی صوتی ہم آہنگی پر تھا۔ اس کے اشعار نہایت خوش کن تھے۔ ان میں ہر ایک نغماتی انداز بیان کی پر استعارہ واضح اکائی ہوتا تھا۔ جیسے قافیے کی لڑی میں موتی پروئے ہوں۔ ان کے موضوع عمودی ہوتے تھے۔ پر تکلف اور نیم کلاسیکی، لیکن داخلی جذبے کے تجزیے اور شائستگی کا حسن بھی ہوتا تھا۔ اقبال اپنی جوانی میں دہلی کے آخری زوالی کین عظیم شاعر داغ سے متاثر ہو کر روایتی غزل کی دلفریبی کا شکار ہوئے۔ لیکن اس کے ساتھ وہ صبح کے ستارے، شمع اور موم بتی، ہمالیہ اور فطرت پپر بھی نظمیں لکھ رہے تھے۔ نظم کی غیر روایتی شکل حالی اور محمد حسین آزاد پہلی ہی استعمال کر چکے تھے۔ نظم بعد میں اقبال کے ہاتھ میں ایک مضبوط ذریعہ بن گئی اور اردو شاعری میں یہ غالب طرز کے طور پر ابھری۔ انہوں نے غزل کو ثانوی حیثیت کا درجہ دے دیا۔ شاعری کی دوسری اصناف میں اقبال کی غیر معمولی فہم و فاست نے وہ بلندی اور شہرت حاصل کی جو شاید ہی کسی بھی ادب میں کسی شاعر کو نصیب ہوئی ہو۔ جب اقبال نے دوبارہ غزل کی طرف رخ کیا تو اس کی پرانی شکل کی کایا پلٹ ہو چکی تھی۔ صدیوں پرانا کلاسیکی انداز تباہ ہو گیا تھا۔ اور اقبال کی غزل میں شگفتہ مشاہدات سے لے کر معاشرتی تبصرے تک بے انتہا تنوع کے موضوع شامل ہو گئے تھے۔ غزل کو نئی زندگی مل گئی تھی اور آج جو غزل دوبارہ بحال ہو رہی ہے، وہ اقبال ہی کا اثر ہے۔ اقبال کی درج ذیل غزلوں کا ان کے پیش رو شاعروں کے نمونہ کلام سے موازنہ کیا جائے تو فرق صاف ظاہر ہو جاتا ہے۔
عالم آب و خاک و باد، سرِ عیاں ہے تو کہ میں
وہ جو نظر سے ہے نہاں، اس کا جہاں ہے تو کہ میں
وہ شب درد و سوز غم، کہتے ہیں زندگی جسے
اس کی سحر ہے تو کہ میں، اس کی اذاں ہے تو کہ میں
کس کی نمود کے لئے، شام و سحر ہیں گرم سیر
شانہ روزگار پر، بارِ گراں ہے تو کہ میں
تو کف خاک و بے بصر، میں کف خاک و خود نگر
کشت وجود کے لئے، آبِ رواں ہے تو کہ میں
ہو شے مسافر، ہر چیز راہی
کیا چاند تارے، کیا مرغ و ماہی
تو مردِ میداں، تو میر لشکر
نوری، حضوری، تیرے سپاہی
کچھ قدر تو نے اپنی نہ جانی
یہ بے سوادی، یہ کم نگاہی
دنیائے دوں کی کب تک غلامی
یا راہبری کر، یا بادشاہی
پیرِ حرم کو دیکھا ہے میں نے
کردار بے سوز، گفتار واہی
اس مضمون میں ہم نے اقبال پر اردو شاعری کی حیثیت سے نظر ڈالی ہے۔ انکے افکار کی وسعت کاتجزیہ علیحدہ کیا گیا ہے۔ وہ فارسی میں بھی عظیم شاعر تھے اور دونوں زبانوں میں انہوں نے اپنی شاعری کو اپنے فکر کی تشریح کا ذریعہ بنایا۔ فلسفیانہ موضوع پر اظہارِ خیال اور فکر کو شعر کی شکل دینے میں اقبال کا اردو ادب میں وہی درجہ ہے جو جرمن زبان میں گوئٹ اور اطالوی ادب میں دانٹے کا ہے۔ اقبال کی عظمت کی بین الاقوامی قدر شناسی نے اردو ادب کو دنیا کے ادبی نقشے پر جگہ دلا دی ہے۔
شاعر کی حیثیت سے غالب اور اقبال کے درمیان حالی کی عظیم شخصیت ہے۔ انہوں نے اردو شاعری کو صدیوں پرانی روایت سے آزادی دلائی۔ شعری بندش کو سادہ بنایا اور اس کو گفتگو کی زبان کے قریب لے آئے۔ ان کا شاہکار ان کی مسدس ہے۔ جس میں انہوں نے اسلام کی احیا اور بحالی کے موضوع کو اردو ادب کے طاقتور محرک کی شکل میں روشناس کرایا۔ یہ ایک نیا انداز تھا۔ اس نے ایک بالکل نئی شاعری کو پیش کیا اور اردو غزل کی روبہ زوال نفس پرستی کی موت کا پیغام بنے۔
وہ لقمان و سقراط کے در مکنوں
وہ اسرار بقراط و درس فلاطوں
ارسطو کی تعلیم، سولن کے قانوں
پڑے تھے کسی قبر کہنہ میں مدفوں
یہیں آ کے مہر سکوت ان کی ٹوٹی
اسی باغِ رعنا سے بو ان کی پھوٹی
حالی اور آزاد دونوں نے لاہور میں رہائش اختیار کر لی تھی جو اردو ادب کے نئے مرکز کی شکل میں ابھر رہا تھا۔ اسی شہر میں اردو کے عظیم ترین شاعر، شاید اسلامی تمدن کی بہترین پیداوار، محمد اقبال نے شاعر اور مفکر کی حیثیت سے اپنی زندگی کی ابتداء کی۔ اقبال کی ادبی زندگی کے دوران، روایتی اردو ادب اپنے عام انداز میں چل رہا تھا۔ اردو ناول کو سرشار اور شرر نے ترقی دی۔ شرر نے اسلام کے ماضی کی نامور شخصیتوں پر تاریخی ناول لکھے۔ رسوا نے ایک حقیقت پر مبنی ناول لکھا جس میں اس زندگی کی تصویر تھی جس کا انہوں نے مشاہدہ کیا اور اس سے لطف اندوز ہوئے۔ ناول پریم چند کے ہاتھوں میں اپنے عروج پر پہنچا۔ پریم چند اردو میں مختصر کہانی لکھنے والے پہلے مقتدر ادیب تھے۔ کہانی نے ناول کی جگہ لے لی۔ جدید دور کے پاکستانی ادیبوں کے لئے سب سے زیادہ مقبول احمد علی اور سعادت حسن منٹو کی کہانیاں ہیں۔
ادبی تنقید اور نظر علمی فضیلت کو نمایاں ترقی مولوی عبالحق اور سید سلمان ندوی نے دی، اردو کے رسالے مقبول ہوئے اور لوگوں کے ذہنوں کو متاثر کیا۔ یہ بات اٹھارویں صدی کے انگلستان اور جدید فرانس کے علاوہ کہیں دیکھنے میں نہیں آئی۔
شاعری دو حصوں میں تقسیم ہو گئی، غزل اور نظم۔ غزل روایتی انداز میں جاری رہی۔ امیر اور داغ کے ذوق کے ساتھ اس میں تھکن کے آثار پیدا ہوئے۔ غالب کے اثر میں دوبارہ ابھری اور تین چار ممتاز شاعر پیدا کیے۔ ان نئے غزل گو شعراء نے مغربی تخیلات کا دھچکا جذب کیا اور ان میں سے ہر ایک نے اپنا اپنا انفرادی طرز اختیار کیا۔ فانی اپنے اردگرد معاشرے کی مایوسی میں ڈوبے ہوئے تھے۔ اصغر نے صوفیانہ وارفتگی کا اظہار کیا۔ حسرت سیاسی رہبر اور صوفی منش انفرادیت کے قائل نے غنائی احساسات کی عکاسی کی۔ جگر میں غنائی حسن کی فراوانی تھیاور انہوں نے محاورہ اور اسلوب بیان کی سادگی کے ذریعے علامتی معانی ظاہر کیے۔ جوان نسل جو اب ادب پیدا کرنے کی کوشش میں ہے۔ غزل کو ایک نئی حرکت اور تحریک دے رہی ہے۔ اس کے موضوع غنائی کے بجائے معاشرتی ہو رہے ہیں اور ان پر بالواسطہ یا بلا واسطہ اقبال کا اثر ہے۔
نظم میں تقریبِِا ہر قسم کی شاعری شامل ہے۔ بہت سے شاروں نے بین الاقوامی موضوعات پر آتش بیانی کی۔ جوش ملیح آبادی نے ایک ناگوار سُر چھیڑا اور انقلابی موضوعات کو عورت، شراب اور موسیقی سے جوڑ دیا۔ عورتوں سے متعلق اختر شیرانی نے محتاط انداز میں شعر کہے۔ آزاد نظم کا تجربہ ن-م راشد نے کیا اور برطانوی شاعر "آڈن” کا اسلوب اور تصویر نگاری فیض احمد فیض میں پائی جاتی ہے۔
ہم عصر برطانوی شعراء ایلیٹ، آڈن اور سپنڈر نے وسیع پیمانے پر البتہ سطحی انداز میں پاکستان کے نوجوان شاعروں کو متاثر کیا ہے۔ ان میں سے کچھ میں واضح صلاحیت نظر آتی ہے۔