اردو رباعی کا سفر اور فنی خصوصیات – Urdu rubai ka safar aur fanni khusoosiyat

     رباعی میں کسی بھی موضوع کو اس طرح پیش کیا جا تا ہے کہ مصرع بہ مصرع خیال کا تسلسل و ارتقا پایا جاتا ہے اور چوتھے مصرع میں خیال اپنی تکمیل کو پہنچتا ہے ۔ گویا چوتھا مصرع رباعی کا خلاصہ ہوتا ہے ۔

ہر رات اذیت وہ نئی لاتا ہے
آ آ کے قریں ، پیاس بڑھا جاتا ہے
پھرتا ہوں پکڑنے کو میں دیوانہ وار
سایہ ہے کہ پنجے سے نکل جاتا ہے 

گیا شیخ ملے گا گل فشانی کرکے
کیا پائے گا توہین جوانی کرکے
تو آتش دوزخ سے ڈراتا ہے انھیں
جو آگ کو پی جاتے ہیں ، پانی کرکے 

     ان دونوں رباعی کے آخری مصرعے اگر نکال دیے جائے تو رباعی نہ صرف ادھورہ رہ جائے گی بلکہ بے معنی و بے اثر ہو جائیں گی ۔ گویا چوتھے مصرعوں ہی پر ان کی معنویت کی تکمیل اور انکی اثر انگیزی منحصر ہے۔ اس لیے اکثر ماہرین نے تاکید کی ہے کہ رباعی کا چوتھا مصرع زوردار ہو۔

امجد حسین 
( سيد امجد حسين ‎ 1878–1961) ، جو امجد حیدرآبادی ( امجد حيدرابادى حیدرآبادی ) کے نام سے مشہور ہیں ) ، امجد کی رباعیوں میں صوفیانہ رنگ غالب پے ۔ زندگی کے اخلاقی پہلوؤں کو امجد نے بڑی خوبصورتی سے اپنی رباعیوں میں پیش کیا ہے۔ معنویت اور اظہار کی قوت سے امجد نے اپنی رباعیوں میں ایک ایسی کیفیت پیدا کی کہ امجد کا نام اردو رباعی کے ساتھ جڑ گیا ۔ انھوں نے اپنی رباعیوں میں انسانی زندگی کے اہم گوشوں کو نہایت سادگی اور چابک دستی سے اس طرح پیش کیا کہ بات سننے والے کے دل میں اتر جائے۔ وہ بے حد منکسرالمزاج بھی تھے امجد حیدرآبادی کی رباعیاں سارے ہندوستان میں مشہور تھیں ، اور انھیں رباعی کا بے تاج بادشاہ تسلیم کیا جاتا تھا لیکن کس قدر انکسار سے وہ کہتے ہیں :

مغموم کے قلبِ مضمحل کو توڑا
یا منزل فیضِ متصل کو توڑا
کعبہ ڈھاتا تو بنا بھی لیتے
افسوس یہ ہے کہ تو نے دل کو توڑا

ہم توڑ کے تارے آسماں سے لائے
مضمون بلند لا مکاں سے لائے 
ہر شعر بہ اعتبارِ فن خوب کہا
لیکن کوئی تاثیر کہاں سے لائے

ایک تبصرہ چھوڑیں