اردو رباعی کا سفر اور فنی خصوصیات – Urdu rubai ka safar aur fanni khusoosiyat

الفت میں مرے تو زندگی ملتی ہے
غم لاکھ سہے تو اک خوشی ملتی ہے
ہر شمع کو، بزم دہر میں، اے آسی
جلنے ہی کے بعد روشنی ملتی ہے

واجد حسین یاس

     واجد حسین یاس یگانہ چنگیزی عظیم آباد پٹنہ میں 1883 ء میں میں تولد ہوئے 1956 ء میں انتقال کیا۔ نازک طبعی مزاج کا خاصہ تھا، لکھنؤ کو اپنا وطن بنالیا تھا۔ ” غالب شکن ” لکھ کر انھوں نے غالب پر سخت تنقید کی تھی ۔ گستاخانہ کلام کی وجہ سے لکھنؤ میں انھیں ذلیل ہونا پڑا۔ بعد ازاں انھیں حیدرآباد میں پناہ ملی ۔عروض و بلاغت پر بہت اچھی دسترس تھی ۔ انھوں نے غزل کے علاوہ رباعیاں بھی لکھیں ۔ یہاں ایک رباعی درج کی جارہی ہے :

بخشش کسے کہتے ہیں عنایت کیسی
ملک اپنا ہے مال اپنا عنایت کیسی
قدرت کا خزانہ ہے تصرف کے لئے
تقدیر کے ٹکڑوں پہ قناعت کیسی

منشی تلوک چند محروم

     مشی تلوک چند محروم اردو کے کہنہ مشق شاعروں میں شمار کیے جاتے ہیں ۔ ان کی رباعیات کا مجموعہ ” مجموعہ رباعیات محروم ” کے نام سے 1942 ء میں شائع ہوا۔ جس پر اقبال، کیفی اور جوش کے دیباچے ہیں۔ ان کی رباعیوں میں حمد، نجات، جذبات اور فلسفیانہ اخلاقی مضامین کثرت سے ہیں۔ منظر نگاری میں بھی انھیں کمال تھا ۔ ایک رباعی یہاں درج کی جاتی ہے :

جنگل کی یہ دل نشیں، فضا یہ برسات
یہ نغمۂ بہاراں یہ ہوا یہ برسات
سامان وارفتگئ شاعر کے ہیں
کوئل کی یہ کوک، یہ گھٹا، یہ برسات

اثر لکھنوی

     جعفر علی خاں اثر لکھنوی اردو کے مشہور شعرا میں شامل ہیں انھیں لکھنو کی ٹکسالی زبان کا ماہر مانا جاتا ہے ۔ ان کی رباعیوں کا ایک مجموعہ ” لالہ و گل ” کے نام سے شائع ہو چکا ہے ۔ اس میں مختلف موضوعات جیسے عشق، فلسفہ، تصوف، اخلاق وغیرہ پر رعیاں ہیں ۔ ایک رباعی یہاں پیش کی جاتی ہے :

لطف و کرم و جور وستم بھول گئے
عیش و طرب و رنج و الم بھول گئے
اس عشق نے بیگانہ کیا سب سے اثر
ایک خواب تھا جو دیکھ کے ہم بھول گئے

جوش ملیح آبادی

     جوش ملیح آبادی کو شاعر انقلاب کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔ ان کے چودہ شعری مجموعے شائع ہوۓ ۔ جوش ملیح آبادی نے بھی رباعیاں لکھی ہیں ۔ان کی رباعیوں کے دو مجموعے شائع ہوۓ ۔ جوش کی رباعی گوئی کے بارے میں آ گے ایک اکائی میں آپ تفصیل سے پڑھیں گے ۔ یہاں بطور نمونہ صرف ایک رباعی درج کی جارہی ہے :

ایک تبصرہ چھوڑیں