غزل
از روئے اختلافِ نظر ایک ہو گئے
سب بے ہنر بنامِ ہنر ایک ہو گئے
حد ہوگئی کہ ظلمتِ شب ہے عزیزِ دید
حد ہو گئی کہ شام و سحر ایک ہو گئے
اب حسنِ اتفاق کی قیمت چکائے دل
اب حامیانِ فتنہ و شر ایک ہو گئے
بس ہم ہی ایک ہو نہ سکے آج تک مگر
خوفِ تبر سے سارے شجر ایک ہو گئے
ہم متفق نہیں تو اٹھاتے ہو فائدہ
پھر کیا کرو گے ہم جو اگر ایک ہو گئے
ساجد رضوی