اس سے بے نام تعلق ہی پہ بدنام ہیں ہم
وہ اگر خوب نہیں کونسے گلفام ہیں ہم
ان سے مل کر نہ کوئی ذکر ہمارا کر دے
بس یہی سوچ کے اس شہر میں گمنام ہیں ہم
ہم نے تصدیق یا تردید میں کچھ بھی نہ کہا
یہ نتیجہ ہے کہ اب موردِ الزام ہیں ہم
اب تو بس خواب کے دامن میں سکوں ملتا ہے
آج کل اس لیے سوتے ہی سرِ شام ہیں ہم
سب تباہی تو نصیبوں کی خرابی سے نہیں
اپنی آشفتہ مزاجی کا بھی انجام ہیں ہم
میرے خوابوں کے بکھرنے کی سزا تجھ کو ملی
تیرے زخموں کا سبب اے دلِ ناکام ہیں ہم
جس کی قیمت میں اداسی بھی ہے تاریکی بھی
دن کی رونق سے الجھتی ہوئی وہ شام ہیں ہم
کوئی تیار نہیں ہاتھ لگانے کو ہمیں
چوم کر جس کو رکھا آپ نے وہ جام ہیں ہم
اب تو سلمان ہمیں خود بھی یہی لگتا ہے
بے سبب گھر میں بپا ہے جو وہ کہرام ہیں ہم
سلمان صدیقی