اس سے پہلے کے نشانات مٹائے جائیں
میرے قاتل مرے سردار بنائے جائیں
وقت سمجھاتا ہے انسان کو ہر بات تو پھر
کیا ضروری ہے کے ہتھیار اٹھائے جائیں
کھا گئے نوچ کے جو لوگ وطن کو میرے
اب ضروری ہے کہ گھر ان کے جلائے جائیں
وسوسے کھانے لگے ہیں در و دیوارِ یقیں
فاصلے اس لیے آپس کے گھٹائے جائیں
منزلیں خود ہی سمٹ آئیں گے ہے شرط یہی
جو بھی اقرار ہوئے ہم سے نبھائے جائیں
کیسے تسلیم کروں تیرے میں بے ربط اصول
جب زمانےیہاں حق اپنوں کے کھائے جائیں
میں بھی اقبال ہوں میں اس لیے کہتا ہوں تمہیں
میرے جو جرم ہیں وہ مجھ کو بتائے جائیں
ڈاکٹر سید محمد اقبال شاہ