غزل
اس طرح اعتبار کرتے رہے
ساری ہستی نثار کرتے رہے
دل جلایا کیے دیے کی جگہ
رنج و غم آشکار کرتے رہے
میری چاہت کو آزمایا کیے
بے رخی اختیار کرتے رہے
ہم تو عہد وفا نبھایا کیے
وہ ہمیں شرمسار کرتے رہے
ان سے اظہار غم گنہ ہی سہی
ہم اسے بار بار کرتے رہے
کیسا وعدہ کیا تھا آنے کا
آج تک انتظار کرتے رہے
پھول کمھلا گئے چمن کے مگر
لوگ جشن بہار کرتے رہے
ہم تڑپتے رہے اداؔ ہر دم
چشم غم اشک بار کرتے رہے
بیگم سلطانہ ذاکر ادا