اس طرح کبھی راندۂ دربار نہیں تھے
رسوا تھے مگر یوں سر بازار نہیں تھے
۔
صحرا میں لئے پھرتی ہے دیوانگئ شوق
کیا شہر میں تیرے در و دیوار نہیں تھے
۔
وہ دن گئے جب منزل جاناں کے مسافر
رہرو تھے فقط قافلہ سالار نہیں تھے
۔
ہے جرأت گفتار تو پھر سامنے آ کر
کہہ دیجیے ہم لوگ وفادار نہیں تھے
۔
کیوں ہم ہی کھٹکتے رہے دنیا کی نظر میں
دیوانوں میں اک ہم ہی طرح دار نہیں تھے
۔
دیتے ہیں دعائیں تری دزدیدہ نظر کو
۔دیوانے کبھی اتنے تو ہشیار نہیں تھے
۔
کیوں مہر بہ لب کوچۂ جاناں سے گزرتے
انسان تھے ہم سایۂ دیوار نہیں تھے
۔
وارفتگئ شوق بتا تو ہی کہ ہم سے
آباد کبھی کوچہ و بازار نہیں تھے
منظر ایوبی