اس عہد ِ ستم گر سے یہ ٹکراؤ تو ہوگا
آئینہ ہوں مَیں مجھ پہ بھی پتھراؤ تو ہوگا
ہر سانس نئے غم کا کوئی گھاؤ تو ہو گا
فرزانوں سے زنداں میں یہ برتاؤ تو ہوگا
دشمن کی اگر چال سمجھ پاؤ تو ہو گا
یہ بازی پلٹنے کا کوئی داؤ تو ہو گا
کِھل اُٹھے تو ہونگےکئی جذبے رگ و پے میں
پُرکیف سا انگڑائی میں پھیلاؤ تو ہو گا
اس شک میں بڑھا دیتا ہے قیمت مری ہر دن
لگتا ہے اُسے ، میرا کوئی بھاؤ تو ہو گا
پہلے سی نہیں مُجھ میں بھی اب تند مزاجی
اب اسکی طبیعت میں بھی ٹھہراؤ تو ہو گا
وسعت تو بہت عشق میں دل پائے گا راجا !
چاہت میں سمندر کا سا پھیلاؤ تو ہو گا
احمدرضاراجا