اس قدر دور ہوں میں بندہء احساں ہو کر
کاش محسوس ہو تم نزدِ رگِ جاں ہو کر
کچھ یہی مصلحتِ وقت ہے ورنہ اے دوست
کون رہتا ہے زمانے میں پریشاں ہوکر
ہم صفیر آج وہ رکھتا ہے سیاست صیاد
جو رگِ گل میں نظر آئے گلستاں ہو کر
دامنِ حسن کا اک تار بھی ہاتھ آ نہ سکا
رہ گئے اہلِ جنوں چاکِ گریباں ہو کر
اب تو مے خانے سے مر کر ہی اٹھوں گا ساقی
جس جگہ جاتا ہوں آتا ہوں پشیماں ہو کر
جس جگہ جاتے فرشتوں کے بھی پر جلتے ہیں
ہم پہنچ جاتے ہیں اس بزم میں انساں ہو کر
عیش ہم لوٹنے والے ہیں بہاریں اس کی
جو بیاباں نظر آتا ہے گلستاں ہو کر
عیش ٹونکی