اس نے اک دن بھی نہ پوچھا بول آخر کس لیے
تو مرے ہوتے دکھی ہے میرے شاعر کس لیے
سانس لینے پر مجھے مجبور کرتا ہے یہ کون
کیا بتاؤں جی رہا ہوں کس کی خاطر کس لیے
سوچتا ہوں کیوں بکھر جاتی نہیں ہر ایک شے
وہ نہیں ہے تو مرتب ہیں عناصر کس لیے
وہ جو اس کے دل میں ہے کیوں اس کے ہونٹوں پر نہیں
کچھ نہیں تو مجھ سے ملتا ہے بظاہر کس لیے
کس نے ہر شے کو کیا وہم و گماں میں مبتلا
ہو گیا سایہ مرا مجھ سے ہی منکر کس لیے
کون دیکھے گا ہماری خون آمیزی یہاں
آ گئے اندھوں میں ہم رنگوں کے تاجر کس لیے
اب رہا ہی کیا ہے میرے جیب و دامن میں ریاضؔ
آ رہا ہے میرے پیچھے وقت شاطر کس لیے
ریاض مجید