اس کو معلوم ہے اس راہ میں آزار بھی ہے۔
وہ مرے ساتھ مگر چلنے پہ تیار بھی ہے۔
سارے کردار کہانی کے ہوئے ختم حضور۔
اس کہانی میں مرا کیا کوئی کردار بھی ھے۔
اس پہ جاں اپنی لٹا دونگا کہے تو اک بار۔
وہ ہی جانی ہے مرا، دل ہے مرا یار بھی ہے۔
اپنے دل سے وہ مجھے گرچہ بھلا بیٹھا ہے۔
اسکی باتوں میں ابھی تک تو مگر پیار بھی ہے۔
تم جسے بیچنے بازار میں لے آئے ہو۔
پوچھ تو لیجئے وہ بکنے کو تیار بھی ہے۔
کیوں کوئی بولی لگاتا نہیں دونوں کی میاں۔
اب تو بکنے کو مصور بھی ہے شاہکار بھی ہے۔
لے آڑا جو بھی مقدر وہ سکندر ٹہرا۔
زیست تو یار مرے جیت بھی ہے ہار بھی ھے۔
زندگی ہنس کے گزارو تو گزر جائے گی۔
ورنہ یہ جان لو کہ کوہِ گراں بار بھی ہے۔
زیست کو اتنا بھی آساں نہ سمجھ جان وفا۔
زندگی پھولوں کی بس سیج نہیں خار بھی ہے۔
محفل بزم سے جانا ہے سب ہی کو اک دن۔
کیا کوئی چلنے کو اس دنیا سے تیار بھی ہے۔
جیت کیوں ہار میں یہ مری بدل جاتی ہے۔
کیا مرے اپنوں میں شامل کوئی غدار بھی ہے۔
اس کی باتوں میں ھے اک ایسا عجب سا جادو۔
دیکھنے میں مرے شائق وہ پراسرار بھی ہے۔
اس چمن کو تو سب ہی لوٹ رہے ہیں یارو۔
کیا مری قوم میں شائق کوئی معمار بھی ہے۔
سید شائق شہاب