اس کے بن یوں ہوا ہے حال اپنا
ہوگیا جیسے انتقال اپنا
عشق کا وہ عجب تھا سوداگر
لے کے دل ، دے گیا رومال اپنا
شدتِ غم سے کھل سکی نہ زباں
نہ بتا پائے اس کو حال اپنا
یوں سبک دوش مجھ سے ہوکے گیا
کہہ گیا رکھنا تم خیال اپنا
ایک لمحہ ہو اک صدی جیسے
ایسا گزرا ہے اب کے سال اپنا
یہ تو ساری عطائیں اسی کی ہیں
ہم میں کچھ بھی نہیں کمال اپنا
کر گیا ہےمجھے وہ رشکِ قمر
دے کے سب حسن اور جمال اپنا
قمرسرور