غزل
اس کے ہونٹوں پہ بہ انداز غزل جاؤں گا
لفظ ہوں اس لیے آواز میں ڈھل جاؤں گا
کیا غضب آگ دہکتی ہے ترے سینے میں
تجھ سے میں بات بھی کر لوں گا تو جل جاؤں گا
جس طرح دوڑ رہا ہوں مجھے اب لگتا ہے
اپنی منزل سے بہت دور نکل جاؤں گا
اسی بکھراؤ میں میں ہوں مجھے ترتیب نہ دے
اس طرح باندھ کے رکھنے سے بدل جاؤں گا
اب کے ساون میں تری یاد برستی ہے یہاں
اس قدر تیز برستی ہے کہ گل جاؤں گا
آج بھی سوچتے رہنے میں گزارا میں نے
کل بھی میں سوچتا رہ جاؤں گا کل جاؤں گا
جان کر ٹھوکریں کھاتا ہوں کہ گر جاؤں میں
خاک سے خاک ملے گی تو سنبھل جاؤں گا
قمر عباس قمر